تمنا کا دوسرا قدم

دمسازِ نوادرات

تصوارت کے جہان سے حقیقت کی دنیا تک ہمارا ساتھ نبھانے اور قدم قدم تعاون کرنے والے ہی ہمارے چارہ ساز و دمساز ہیں جو اس سفر کے ہر دشوار مرحلے کو صرف اس لیے آسان بناتے ہیں کہ ہم نے جو خواب دیکھا اسے حقیقت میں ڈھال سکیں

دنیا کا پہلا ادبی، ثقافتی

و ترقیم ساز منہج


آج میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں اپنی زندگی کے دیرینہ خواب کو تعبیر کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اور سر جھکا کر طویل مسافت طے کر کے اس مقام تک پہنچ چکا ہوں جہاں میرا خواب، تصور سے عالمِ جِن و انس میں ظہور پذیر ہو چلا ہے. اس طویل سفر میں غالب کے مصرع ’’جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر‘‘ کی گردان نیا حوصلہ فراہم کرتی رہی مگر یہ سفر تمہاری حسین آنکھوں میں دیکھتے رہنے کی خواہش کی طرح کبھی نہ ختم ہونے والا ہے. نوادرات تمہارے خوابوں کی طرح ایک خواب ہی تو ہے جس کے ساتھ میں نے اپنے رات دن بسر کیے ہیں اور نوادرات نامی اس خواب کو تمہاری ہی طرح دل میں بسائے رکھا ہے، اور اس دوران ایک لمحے کے واسطے بھی یہ نہیں سوچا کہ نتیجہ کیا ہوگا، آج بھی میں اس بات سے بے خبر ہوں اور آئندہ بھی لا علم ہی رہوں گا کیونکہ آج تک رخشِ عمر کو بھَلا کون قابو کر سکا ہے، اگر قابو کیا جا سکتا تو کیا تم اس طرح مجھ سے دور ہو سکتی تھیں، کبھی نہیں، ، امجھے یاد نہیں، مگر ہو سکتا ہے کہ میں نے اپنے کسی خط میں تمہیں بتایا ہو کہ نوادرات دنیا میں پہلی بار تمام زبانوں کے ادب کو اکھٹا کرنے کی کوشش ہے، با الفاظ دیگر میں دریا کو کوزے میں بند کر دینا چاہتا ہوں تا کہ پھر تشنگی نہ رہے اور علم و اَدب کے دیوانے نوادرات نامی شمع سے فیضیاب ہوتے رہیں، اور اس اُجالے میں نون میم راشد کی صراحی و فانوس و گلدان و جام و سُبو کی طرح بنتے اور سنورتے رہیں. میری نظر میں یہ کوئی علمی کارنامہ نہیں ہاں مگر علم و ادب کے میدان میں کسبِ کمال کُن کا نعرہ لگانے والوں کی صدائیں دنیا تک پہنچانے کا ایک سبب ضرور ہے. نوادرات ایک ایسا سیارہ ہے جہاں علم و اَدب کے آسمان پر شاعر، ادیب، طلبہ اور اساتذہ ایک ساتھ مل کر کمند ڈالیں گے اور ایک منفرد کہکشاں بنائیں اور سجائیں گے تو فلکِ زیست پر نئے ستارے جگمگائیں گے۔

ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی

ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی

19پروفیسر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (پیدائش: 15 جون، 1916ء - وفات: 7 ستمبر، 1994ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ماہرِ لسانیات، محقق، ماہرِ تعلیم، نقاد، جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور کولمبیا یونیورسٹی کے وزٹنگ پروفیسر تھے۔ ابواللیث صدیقی 15 جون، 1916ء کو آگرہ ،برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے آگرہ، بدایوں اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے اسکالر تھے۔ انھوں نے 1943ء میں دبستان لکھنؤ پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، ابواللیث صدیقی ابتدا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ 1948ء میں لندن اسکول آف ایشین اینڈ افریقن اسٹڈیز چلے گئے اور شمالی ہندوستان میں ہند-آریا زبانوں پر تحقیق کی۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔ پہلے لاہور اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ابو اللیث صدیقی اورینٹل کالج لاہور اور جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اور اردو شعبہ کے سربراہ رہے۔ اسی دوران انھوں نے کچھ عرصے اردو لغت بورڈ کراچی کے مدیر اعلیٰ کی خدمات بھی سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ کولمبیا یونیورسٹی کے وزٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ تنقید اور تحقیق میں ڈاکٹر صاحب کو دلچسپی یکساں طور پر تھی بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ اُن کی نمایاں تصانیف میں”لکھنؤ کا دبستانِ شاعری”(1944ء)،”جرات:اُن کاعہد اور عشقیہ شاعری”(1953ء)،”نظیر اکبر آبادی: اُن کا عہد اور شاعری”(1957ء)، “تجربے اور روایت”(1959ء)،”اُردو کی ادبی تاریخ کا خاکہ”(1967ء)، “غزل اور متغزلین”(1968ء)،”ادب و لسانیات” (1970ء)،”جامع القواعد (حصہ صرف)” (1971ء)،”آج کا اُردو ادب”(1975ء)، “اقبال اور مسلک تصوف”(1977ء)، “ملفوظاتِ اقبال”(1977ء)، “ہندوستانی گرامراز بنجمن شُلزے(ترتیب و ترجمہ و تعلیقات)”(1977ء)،”اُردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ”(1981ء) اور “امراؤ جان ادا: تنقید و تبصرہ”(1992ء) شامل ہیں۔”رفت و بود”کے نام سے اُن کی خود نوشت سوانح1981ء میں سلسلہ وار شائع ہوئی جسے اُن کے شاگرد ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کتابی شکل میں مرتب کیا اور اِس کتاب کو2011ء میں ادارہ یادگارِ غالب کراچی نے شائع کیا۔”رفت و بود”صدیقی صاحب کے علی گڑھ میں گزارے دنوں کی نمایاں عکاس ہے۔اُردو لسانیات کے تناظر میں اُن کی دلچسپی کے نمایاں شعبوں میں تاریخی لسانیات، توضیحی لسانیات اور صوتیات شامل ہیں۔ لسانیات کے موضوع پر ابواللیث صدیقی کی اہم تصنیف”ادب و لسانیات”کے عنوان سے جنوری1970ء کو منظر ِعام پر آئی جسے اُردو اکیڈمی سندھ، کراچی نے شائع کیا۔یہ کتاب اُن کے علمی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے جو اُنھوں نے مختلف اوقات میں تحریر کیے اور مختلف محفلوں میں پڑھے۔اِس کتاب میں شامل مضامین کی کل تعداد اکیس ہے۔ اُنھوں نے اپنے شاگردوں کی تربیت اِس انداز سے کی کہ آج اُن کے شاگردوں کا اُردو ادب و لسانیات کے منظر نامہ پر اپنا مخصوص مقام ہے جس میں ابواللیث صدیقی صاحب کی محنت کا کمال ہے۔ پچاس سے زائد طلبا نے اُن کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے تحریر کیے۔اُن کے معروف شاگردوں میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام نمایاں ہیں۔اُنھوں نے بیس کے قریب کتابیں تحریر کیں۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی 7 ستمبر، 1994ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے اور جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی

ڈاکٹر جمیل جالبی

ڈاکٹرجمیل جالبی 12 جون، 1929ء کو علی گڑھ، برطانوی ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان ہے۔ ان کے آباء و اجداد یوسف زئی پٹھان ہیں اور اٹھارویں صدی میں سوات سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے والد محمد ابراہیم خاں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ جالبی صاحب کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انھوں نے بارہ سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب جانورستان تھی جو جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا۔ ان کی ایک اہم کتاب پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے جس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور مشہور تصنیف تاریخ ادب اردو ہے جس کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی اور دیوان نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں۔ جمیل جالبی کی ایک کتاب ’’تنقید اور تجربہ‘‘ ہے جس میں چوبیس مضامین ہیں۔ ’’حیرتناک کہانیاں‘‘ کے نام سے ایک کتاب ہے، جو 1983ء میں بک فاؤنڈیشن، کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ قدیم اردو کی لغت مرکزی اردو بورڈ، لاہور نے 1983ء میں شائع کیا۔ محمد تقی میر پر بھی ان کی ایک کتاب ہے، جسے انجمن ترقی اردو کراچی نے 1981ء میں شائع کیا۔ ایک مجموعہ ’’نئی تنقید‘‘ بھی ہے جسے خادر جمیل نے 1985ء رائل بک کمپنی سے شائع کروادیا۔ اس مجموعے میں 23 مضامین ہیں۔ ان کی ایک کتاب پاکستان کلچر سے متعلق ہے۔ دراصل یہ ترجمہ ہادی حسین کی کتاب کا ہے۔ دوسرے تراجم میں ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘، ’’ایلیٹ کے مضامین‘‘ اور ’’جانورستان‘‘ مشہور ہیں۔ تحقیقات میں ’’دیوان حسن شوقی‘‘، ’’دیوان نصرتی‘‘، ’’مثنوی نظامی دکنی المعروف‘‘ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ‘‘ اہم ہیں۔ تالیفات میں بھی چار کتابوں کا ذکر ہے۔ جیسے ’’بزم خوش نفساں‘‘، اس میں شاہد احمد دہلوی کے 26؍ سوانحی خاکے ہیں۔ ’’حاجی بغلول‘‘ (منشی سجاد حسین کا مزاحیہ ناول) اس کے علاوہ ’’ن م راشد: ایک مطالعہ‘‘۔ آخری کتاب انگریزی میں ہے، نام ہے The changing world of Islam دراصل یہ کتاب ڈاکٹر قاضی اے قادر کے اشتراک سے مرتب کی گئی ہے۔ ان تمام ادبی فتوحات کے ساتھ ساتھ ایک لمبی فہرست ان پیش لفظ، مقدمات، تعارف کی ہے جو موصوف وقتاً فوقتاً لکھتے رہے ہیں۔ ان کی تعداد 45 ہے اور اگر انگریزی کے مشملات کو ملا لیا جائے تو تعداد 61(اکسٹھ) ہوجاتی ہے۔ جمیل جالبی نے اتنے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے کہ سب کے تحلیل و تجزیے کے لئے ایک تفصیلی کتاب کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 1964ء، 1973ء، 1974ء اور 1975ء میں داؤد ادبی انعام، 1987ء میں یونیورسٹی گولڈ میڈل، 1989ء میں محمد طفیل ادبی ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی طرف سے 1990ء میں ستارۂ امتیاز اور 1994ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا[2]۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 2015ء میں آپ کو پاکستان کے سب سے بڑے ادبی انعام کمال فن ادب انعام سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے 89 سال 10 ماہ 6 دن کی عمر میں 18 اپریل 2019ء کو کراچی میں وفات پائی۔

انتظار حسین

انتظار حسین

انتظار حسین (پیدائش: 21 دسمبر، 1925ء - وفات: 2 فروری،2016ء) اردو کے ایک ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار تھے، انھوں نے ایک داستان اور آپ بیتی طرز پر دو کتابیں لکھیں۔ حکومت فرانس نے ان کو ستمبر 2014ء میں آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز عطا کیا۔ انتظار حسین کا انتقال 2 فروری 2016ء کو 92 سال کی عمر میں لاہور کے ایک ہسپتال میں ہوا۔ انتظار حسین کا فن عوامی نہیں۔ انھوں نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ ان کے افسانوں کے اسرار معلوم کرنے کے لیے وسیع مطالعہ کرنا بھی لازمی ہے۔ ہجرت کے حوالے سے ایک خاص طرح کا تناؤ انتظار حسین کے ہاں جاری و ساری ہے۔ اس صورت حال سے وہ خود کو منطقی طور پر الگ نہیں کر سکے۔ انھیں زندگی کی ظاہری بناوٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ باطن میں جو حالت درپیش ہوتی اس کا خیال رکھتے۔ یہی باطن کی غوطہ زنی اور اسلوبیاتی تنوع انتظار حسین کی پہچان ہے۔ لیکن وہ اسے فکری اور نظری پسماندگی کا نام بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں وہ فرد کی انفرادی سطح پر اخلاقی جدوجہد کو بے معنی قرار دیتے ہیں۔ یہی موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح وہ مقام ہے جہاں پر انتظار حسین افسانے کے پیش منظر میں داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔ انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

گلزار

گلزار

گلزار ایک نامور شاعر اور ہدایت کار ہیں اور ان کا اصل نام سمپورن سنگھ ہے. وہ پاکستان کے شہر جہلم کے قریب دینہ میں 1936ء میں پیدا ہوئے۔ تقسیم برصغیر کے وقت وہ بھارت چلے گئے۔ ابتدائی زندگی میں موٹر مکینک تھے۔ شاعری اور فلمی دنیا کی طرف رحجان انھیں فلمی صنعت کی طرف لے گیا۔ گلزار نے فلمی اداکارہ راکھی سے شادی کی۔ گلزار نے بطور ہدایتکار اجازت، انگور، پریچے، موسم اور ماچس جیسی فلمیں بنائیں۔ اس کے علاوہ کئی فلموں جیسے (معصوم، دل سے) میں بحیثیت منظر نویس، مکالمہ نویس، اور نغمہ نویس بھی خدمات انجام دیتے رہے. ان کا ٹیلی ڈرامہ مرزا غالب ایک کلاسیک کی حیثت رکھتا ہے۔ گلزار نے بطور شاعر بے شمار فلموں میں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی فلمی شاعری میں بھی ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ انوکھی اور نادر تشبیہات کا استعمال ان کے گیتوں میں نئے رنگ بھر دیتا ہے۔ ان کے گیت نہ صرف ماضی میں پسند کیے جاتے رہے ہیں بلکہ آج کے دور میں بھی ان کے گانوں کو نوجوان شوق سے سنتے ہیں۔ گلزار کے قلم سے نکلا ہر نغمہ عوام کے دل و دماغ پر مخصوص چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ گلزار نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نہ صرف بھارت بلکہ تمام دنیا سے منوایا اور کئی اعزازات اپنے نام کیے قومی فلم اعزاز برائے غنائی شاعری، فلم فیئر ایوارڈ برائے بہترین ہدایت کار اور غنائی شاعری کے علاوہ وہ پدم بھوشن اور ساہتیہ اکاڈمی اعزاز بھی اپنے نام کر چکے ہیں، جبکہ فلم سَلَم ڈاگ ملینئیر کے لیے لکھے گئے گیتوں پر ان کو آسکر اعزاز سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر ہلال نقوی

ڈاکٹر ہلال نقوی

سید ہلال رضا نقوی المعروف ہلال نقوی 18 فروری 1950 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید مزمل حسین نقوی تھا۔ سات سال کی عمر میں کراچی آ گئے۔ اور یہیں تعلیمی منازل کراچی میں طے کیں۔ کراچی میں ہی راجا صاحب محمود آباد کے قائم کردہ کالج سراج الدولہ کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ اور پھر جامعہ کراچی سے 1973 میں ایم اے اردو کیا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے 1985 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ان کا پی ایچ ڈی مقالہ بیسویں صدی اور جدید مرثیہ کے عنوان سے تھا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے 1974 سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور ان کی تعیناتی جن مختلف کالجز میں بطور استاد شعبہ اردو کے رہی۔ ان میں گورنمنٹ کالج گھوٹکی سندھ، گورنمنٹ سراج الدولہ کالج کراچی، گورنمنٹ اسلامیہ کالج کراچی اور گورنمنٹ کالج گلشن اقبال کراچی شامل ہیں۔ وہ گورنمنٹ ڈگری کالج، گلشن اقبال ،کراچی میں شعبہ اردو کے سربراہ بھی رہے ہیں اورجامعہ کراچی کے مطالعہ پاکستان کے شعبہ میں وزٹنگ پروفیسر کی خدمات پرمامور ہیں۔ نیز اردو میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی رہنمائ اور نگرانی بھی فرماتے ہیں۔ آج کل کراچی میں ہی مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ہلال نقوی رثائ ادب اور دیگر ادبی موضوعات پر لیکچرز کے لیے اور بالخصوص مرثیہ پیش کرنے کے لیے ناروے اوسلو، کنیڈا، عرب امارات، انڈیا اور دیگر کؑئ ممالک بھی با رہا مدعو کیے جا چکے ہیں. شاعری کا آغاز 1967 میں غزل گوئی سے ہوا۔ اس کے بعد نظم کی طرف توجہ رہی۔ البتہ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ زیادہ شہرت ان کو نئی طرز کے مرثیوں کے سبب ملی، جن میں انھوں نے مسدس کے تیسرے مصرعے کو غیر مقید کر دیا۔ اور اس کا بہت چرچا رہا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی جدید مرثیہ نگاری کے بہت معتبر شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کے مرثیے سن کر مرثیہ گوئی کی جانب آئے اور 1970 میں پہلا مرثیہ کہا۔ جب وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔ اور جوش ملیح آبادی سے اصلاح لی۔ جوش صاحب نے اپنے ایک خط میں ان کو اپنا شاگردِ اولین لکھا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی نے مرثیہ میں جناب نسیم امروہوی کی بھی شاگردی اختیار کی۔ مرثیئے کے علاوہ انھوں نے غزل، نظم، رباعیات اور آزاد نظموں پر بھی طبع آزمائی کی ڈاکٹر ہلال نقوی جوش کی تمام قلمی نگارشات بشمول فنِ مرثیہ کے بہترین ناقدین میں سے ہیں اور وہ اس موضوع پر اب تک چھ کتب لکھ چکے ہیں. ڈاکٹر ہلال نقوی کی تصنیفات کی فہرست درج ذیل ہے. چشمِ نم 1970 گلدستہِ اطہر پر ایک نظر 1977 جدید مرثیئے کے تین معمار 1977 امانتِ غم ( باقر امانت خانی کے مرثیے ) 1982 مقتل و مشعل (1976 ) پسِ تاریخ ( ڈاکٹر ہلال کا مرثیہ ) 1982 جمیل مظہری کے مرثیئے 1988 عرفانیاتِ جوش ( 1991 / 2011) مثنوی آب و سراب (جمیل مظہری ) 1988 ارمغانِ نسیم (مقالات ) 1992 جوش ملیح آبادی کی نادر و غیر مطبوعہ تحریریں (1992) مسدس فریاد و جوابِ فریاد ( جمیل مظہری ) 1993 اذانِ مقتل ( ڈاکٹر ہلال کے مرثیے ) 1993 بیسویں صدی اور جدید مرثیہ ( مقالہ ) 1994 جوش ملیح آبادی، شخصیت و فن (2007) جوش کے انقلابی مرثیئے (2010) اوراقِ جوش ( 2010) مرثیئے کی نایاب آوازیں (2011) جدید بیاضِ مرثیہ (2012) نسیم امروہوی کے مرثیے (2012) ڈاکٹر یاور عباس کے مرثیے (2012) جوش ملیح آبادی [5] یادوں کی برات کا قلمی نسخہ صابر تھاریانی کے گجراتی قطعات انتقادیاتِ جوش ( 2017 ) کلیات جوش (2020) ان تصانیف کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی نے اردو ادب میں مرثیہ کے حوالے سے پہلا معتبر ادبی رسالہ '''رثائی ادب '''کے نام سے ایک جاری کیا۔ اب تک اس کے چھتیس شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ اور ان میں بارہ بارہ سو صفحات کے انیس و دبیر نمبر بھی مرتب کیے گئے ہیں ۔ نیز اردو شاعروں میں اب تک غالب اور اقبال کے نام سے ہی باقاعدہ رسالے جاری ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے جوش شناسی کے عنوان سے باقاعدہ رسالہ جاری کیا ہے۔ جو صرف جوش ملیح آبادی کی تحریروں اور ان سے متعلق تحقیقات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب تک اس کے سات شمارے آ چکے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کے ناقدین اس بات کے معترف ہیں کہ جوش سے متعلق ڈاکٹر ہلال نقوی کی مسلسل تحقیق و تحریر کے باعث ان کا نام برصغیر میں جوش ملیح آبادی پر تحقیق کے حوالے سے اٹھارتی کا درجہ رکھتا ہے ۔

پیرزادہ قاسم

پیرزادہ قاسم

پیرزادہ قاسم رضا صدیقی 8 فروری 1943ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، تقسیم ہند کے بعد والدین کے ساتھ کراچی آگئے پیر زادہ قاسم نے ڈی جے سائنس کالج سے انٹر اور جامعہ کراچی سے بی ایس سی (آنر) کے بعد ایم ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد نیو کیسل یونیورسٹی برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ 1960ء میں جامعہ کراچی میں بحیثیت لیکچرار مقرر ہوئے۔ دوران ملازمت وہ جامعہ کراچی کے پرووائس چانسلر اور رجسٹرار، رکن سنڈیکیٹ، مشیر امور طلبہ اور دیگر اہم کمیٹیوں کے رکن بھی رہے۔ پیرزادہ قاسم 2012ء تک جامعہ کراچی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ ، وفاقی اردو یونیورسٹی اور ضیاء الدین یونیورسٹی کے بھی وائس چانسلر بنے رہے پیرزادہ قاسم 1960ء سے شعر کہہ رہے ہیں۔ انھوں نے تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے، مگر غزل ان کا خاص میدان ہے۔ 1996ء میں دبئی میں جشن پیرزادہ قاسم بڑی شان وشوکت سے منایا گیا۔ ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں : ’تند ہوا کے جشن میں ‘‘، ’’شعلے پہ زبان‘‘۔ آپ اردو زبان کے ممتاز شعرا کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور تمام دنیا میں بحیثیت شاعر اپنی الگ شناخت کے حامل ہیں۔

محسن نقوی

محسن نقوی

محسن نقوی کا اصل نام سید غلام عباس تھا۔ لفظ محسن نقوی اُن کا ادبی نام جبکہ محسن تخلص تھا۔ محسن نقوی 5، مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے، انھوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پھر جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن کرنے کے بعد جب یہ نوجوان جامعہ پنجاب کے اردو ڈیپارٹمنت میں داخل ہوا تو دنیا نے اسے محسنؔ نقوی کے نام سے جانا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعۂ کلام چھپا۔ بعد میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انھیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہلبیت پہ لکھی ہوئی شاعری بیان کیا کرتے تھے۔ محسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کیے۔ ان کی تصانیف میں بند قبا،عذاب دید، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق ایلیا، رخت شب ،ریزہ حرف ، موج ادراک اور دیگر شامل ہیں۔ محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر نمایاں تھا۔ ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول تھی۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ محسن نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں اِک ”عکس“ تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ محسن کی نثر جو اُن کے شعری مجموعوں کے دیباچوں کی شکل میں محفوظ ہو چکی ہے بلا شبہ تخلیق تحریروں کی صفِ اوّل میں شمار کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور صنفِ سخن یعنی قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں۔ اِن کے قطعا ت کے مجموعے ” ردائے خواب” کو ان کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔ نقادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا۔ مذہبی نوعیت کے قطعات ” میراثِ محسن ” میں پہلے ہی درج کیے جا چکے ہیں۔ محسن نے اخبارات کے لیے جو قطعات لکھے ان کی زیادہ تر نوعیت سیاسی تھی لیکن ان کا لکھنے والا بہر حال محسن تھا - 1994ء میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ محسن نقوی شاعر اہلِ بیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے ۔ اردو غزل کو ہر دور کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا کیے۔ محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔ محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انھوں نے جدید طرز احساس عطا کیا۔ محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اہل بیت سے منسوب ہے۔ انھوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔ محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا ان کا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری صرف الف- لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ انھوں نے دینا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔ اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر محسن نقوی نے کالعدم تحریکِ طالبان،سپاہ صحابہ اور اس کی ذیلی شاخوں کو اپنی شاعری کے ذریعے بے نقاب کرناشروع کیا تو پھر وہی ہوا جو اس ملک میں ہر حق گو کا مقدر ہے۔ اردو ادب کا یہ دمکتا چراغ 15 جنوری 1996ء کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے سر سناں، کوئی سر سجاؤ ! اُداس لوگو شہادت سے چند لمحے قبل محسن نقوی نے ایک لازوال شعر کہا تھا کہ سفر تو خیر کٹ گیا میں کرچیوں میں بٹ گیا۔ محسنؔ نے بے انتہا شاعری کی جس میں حقیقی اور مجازی دونوں پہلو شامل تھے۔ ان کی پہچان اہلبیتِ محمدؐکی شان میں کی گئی شاعری بنی۔

افتخار عارف

افتخار عارف

افتخار عارف کی اصل تاریخ پیدائش 21 مارچ 1944ء ہے جبکہ کاغذات میں 1943ء درج ہے سو اسی نسبت سے آپ کے بارے لکھا جاتا ہے کہ آپ 21 مارچ، 1943ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔ اے کیا۔ اپنی علمی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں بحیثیت نیوز کاسٹر کیا۔ پھر پی ٹی وی سے منسلک ہو گئے۔ اس دور میں ان کا پروگرام کسوٹی بہت زیادہ مقبول ہوا۔ بی سی سی آئی بینک کے تعاون سے چلنے والے ادارے "اردو مرکز" کو جوائن کرنے کے بعد آپ انگلینڈ تشریف لے گئے۔ انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین بنے۔ اس کے بعد اکادمی ادبیات کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے۔ جبکہ نومبر 2008ء سے مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے کے بعد آج کل اسلامی جمہوریہ ایران کے دار الحکومت تہران میں ایکو تنظیم کے ثقافتی شعبے کو سبنھالے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران میں ہونی والی ادبی اور علمی محفلوں کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں افتخارعارف صاحب کی شرکت تقریبا ایک لازمی امر بن گئی ہے۔ افتخار عارف کی شاعری ایک ایسے شخص کی شاعری ہے جو سوچنا، محسوس کرنا اور بولنا جانتا ہے جب کہ اس کے ہمعصروں میں بیشتر کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ سوچ نہیں سکتے یا وہ محسوس نہیں کر سکتے اورسوچ اور احساس سے کام لے سکتے ہیں تو بولنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان کی ان خصوصیات کی بنا پر جب میں ان کے کلام کو ہم دیکھتے ہیں تو یہ احساس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ افتخار عارف کی آواز جدید اردو شاعری کی ایک بہت زندہ اور توانا آواز ہے۔ ایک ایسی آواز جو ہمارے دل و دماغ دونوں کو بیک وقت اپنی طرف کھینچتی ہے اور ہمیں ایک ایسی آسودگی بخشتی ہے جو عارف کے سوا شاید ہی کسی ایک آدھ شاعر میں مل سکے۔

اسماعیل میرٹھی

اسماعیل میرٹھی

اسماعیل میرٹھی 12نومبر 1844کو میرٹھ کے ایک محلے مشائخان میں پیدا ہوئے تھے۔ اب یہ علاقہ اسما عیل نگر کے نام سے معروف ہے۔ مولانا اسمٰعیل میرٹھی،12نومبر، 1844 عیسوی کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ اب یہ محلہ اسمٰعیل نگر کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا اور یہی آپ کے پہلے استاد بھی تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق مولانا نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ پہلے فارسی اور پھر دس برس کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم مکمل کی۔ 1857 کی جنگِ آزادی کی تحریک کے وقت 14سالہ اسمٰعیل نے محسوس کر لیا تھا کہ اس وقت اس مردہ قوم کو جگانے اور جگائے رکھے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے تحت انھوں نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد جدیدعلوم سیکھنے پرتوجہ دی، انگریزی میں مہارت حاصل کی، انجنیئرنگ کا کورس پاس کیا، مگر ان علوم سے فراغت کے بعد اعلیٰ ملازمت حاصل کرنے کی بجائے تدریس کا معزز پیشی اختیار کیا تاکہ اس راہ سے قوم کو اپنے کھوئے ہوئے مقام تک واپس لے جانے کی کوشش کریں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسما عیل میرٹھی نے سررشتہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی جہاں ان کی ملاقات قلق میرٹھی سے ہوئی۔ قلق میرٹھی نے انگریزی کی پندرہ اخلاقی نظموں کا منظوم ترجمہ ’جواہر منظوم‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس منظوم ترجمے نے اسما عیل میرٹھی کو بہت متاثر کیا، جس سے نہ صرف ان کی شاعری میں بلکہ جدید اردو نظم میں وہ انقلاب برپا ہوا کہ اردو ادب جدید نظم کے نادر خزانے سے مالامال ہو گیا۔

پروین شاکر

پروین شاکر

نومبر، 1952 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔ آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی. شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ لواحقین میں ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔تفصیلات کے مطابق پروین شاکر صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کی کار ایک ٹریفک سگنل پر موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں پروین شاکر شدید زخمی ہوئیں، انہیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئیں اور اسلام آباد ہی کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں ۔ ان کے لوح مزار پر انہی کے یہ اشعار کندہ ہیں یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے زخم ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے شہر سخن سے روح کو وہ آشنائی دے آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستا سجھائی دے

جون ایلیا

جون ایلیا

جون ایلیا (14 دسمبر، 1931ء – 8 نومبر، 2002ء) برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پزیرائی نصیب ہوئی۔جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ بقول اسلم فرخی صاحب "جناب جون ایلیا ہمارے عہد کے بڑے خوش گو اور خوش فکر شاعر ہیں۔ ان کے یہاں جذباتی وفور کے ساتھ ساتھ گہرے شعور کی جو پرچھائیاں ملتی ہیں ان کی وجہ سے جناب جون ایلیا کی شاعری بڑی قابل قدر اور اہم ہوگئی ہے۔ وہ تاریخ اور فلسفے کے بڑے زیرک طالب علم ہیں، علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ زندگی اور معاشرے کے بارے میں ان کا رد عمل بڑا حقیقت پسندانہ اور مثبت ہے۔ اگرچہ فنون لطیفہ میں وراثت کا کوئی تصور نہیں تاہم ہماری شاعری میں اس کلیے کے جو استثنا نظر آتے ہیں ان میں جناب جون ایلیا بھی شامل ہیں۔ شاعری اور ادب انہیں ورثے میں ملے ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ انہوں نے ادب و شعر کی آغوش میں آنکھیں کھولی ہیں اور ادب و شعر کی گود میں پرورش پائی ہے لیکن جو کچھ انہوں نے بزرگوں سے حاصل کیا اسے اپنی انفرادیت کی چھاپ اور اپنے ذاتی رنگ و آہنگ سے بہت زیادہ پرکشش اور اثر انگیز بنادیا ہے۔ جناب جون ایلیا غزل اور نظم دونوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں رندانہ سرخوشی، تازگی اور ندرت خیال ہے۔ نظمیں گہری فکر کی حامل اور پر اثر ہیں۔ ان کے کلام کی جس خصوصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ رندانہ جوش و خروش کی تہ سے ابھرنے والی فکر ہے جو قاری کے دل و دماغ دونوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے"۔

احمد فراز

احمد فراز

احمد فراز ( یوم پیدائش 12 جنوری، 1931ء - یوم وفات 25 اگست، 2008ء) میں کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ ' تھا۔ احمد فراز نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کا نام احمد شاہ کوہاٹی ہوتا تھا جو بعد میں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فراز ہو گیا۔اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ " تنہا تنہا " شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے۔احمد فراز جنھوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانۂ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ انہوں نے ضیاالحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں جنہیں بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انہیں ملٹری حکومت نے حراست میں لیے جس کے بعد احمد فراز کوخود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی۔2004ء میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انھوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔ احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔25 اگست 2008ء کو احمد فراز اسلام آباد میں وفات پا گئے۔ احمد فراز اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں،

منیر نیازی

منیر نیازی

منیر نیازی (9 اپریل 1923ء - 26 دسمبر 2006ء) کا شمار اردو اور پنجابی کے اہم تر شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری قیام ساہیوال کے ایام کی یادگار ہے۔ منٹگمری (اب ساہیوال) میں انھوں نے ۔۔سات رنگ۔۔۔کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ لاہور منتقلی کے بعد فلمی گانے بھی لکھے۔ منیر نیازی کی غزل میں حیرت اور مستی کی ملی جلی کیفیات نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں ماضی کے گمشدہ منظر اور رشتوں کے انحراف کا دکھ نمایاں ہے۔منیر نیازی ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آ گئے۔ان کے اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان میں شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔

ناصر کاظمی

ناصر کاظمی

ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925 کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبیدار میجر تھے اور والدہ اک پڑھی لکھی خاتون انبالہ کے مشن گرلز اسکول میں ٹیچر تھیں۔ ناصر نے پانچویں جماعت تک اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ماں کی نگرانی میں گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰیٰ، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں پڑھیں۔ بچپن میں پڑھے گئے داستانوی ادب کا اثر ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ ناصر نے چھٹی جماعت نیشنل اسکول پشاور سے، اور دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ انھوں نے بی اے کے لئے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا تھا، لیکن تقسیم کے ہنگاموں میں ان کو تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں پاکستان پہنچے تھے۔ ناصر نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔’’غزل کا احوال دلّی کا سا ہے۔ یہ بار بار اجڑی ہے اور بار بار بسی ہے کئی بار غزل اجڑی لیکن کئی بار زندہ ہوئی اور اس کا امتیاز بھی یہی ہے کہ اس میں اچھی شاعری ہوئی ہے۔‘‘ (ناصر کاظمی)2 مارچ، 1972ءکو ناصر کاظمی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

فیض احمد فیض

فیض احمد فیض

فیض کا پیدائشی نام چوہدری فیض احمد تھا اور آپ ایک زمیندار جٹ گھرانے میں پیدا ہوۓ اور آپکا خاندانی گوت ’’تتلہ‘‘ تھا۔ اِس کی نشاندہی سرکاری کاغذ اور اہلِ علاقہ کیا کرتے ہیں۔ عام طور سے اپنا نام فیض احمد فیض بتاتے تھے۔ جب بحیثیتِ شاعر فیض کی شہرت اچھی خاصی پھیل گئی تو اُنہوں نے اپنے نام کے ساتھ تخلص کا اِضافہ کرتے ہوئے اِسے ’’فیض احمد فیضؔ‘‘ لکھنا شروع کردیا۔مسلمان گھرانوں میں رائج دستور کے مطابق قرآن کریم کے حفظ کرنے سے زندگی کی ابتداء ہوئی۔ چار سال کی عمر میں ابتداء فیض نے دعاؤں کے الفاظ ماں سے سن کردہرانا سیکھا اور پھر ایک سال بعد والد اُن کو ابتدائی اسکول مکتب لے گئے۔ اس مکتب کے سربراہ سیالکوٹ کے معروف و مذہبی کارکن مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی تھے۔ کئی دوسرے قرآنی مکتب کے برخلاف مولوی ابراہیم سیالکوٹی کے مکتب میں بچے نہ صرف آیاتِ قرآنی پڑھتے تھے بلکہ فارسی زبان اور عربی زبان بھی پڑھتے تھے۔ اِس اسکول میں فیض پانچ سال تک سورہ ہائے قرآن حفظ کرتے رہے، اُن کی صحیح قرأت سیکھتے رہے اور تفسیرِ قرآن سے واقفیت حاصل کی اور اِس کے علاوہ فارسی اور عربی زبانین بھی سیکھتے رہے۔فیض کو اِن زبانوں کو سیکھنے میں کوئی دِقت پیش نہ آئی ۔ فیض دمہ کے عارضہ میں مبتلاء تھے جس نے اُن کو کافی کمزور کردیا تھا۔1984ء کے موسم گرماء میں یورپ سے واپسی پر کچھ دِنوں بعد فیض کی طبیعت خراب ہوئی مگر وہ لاہور میں اپنا علاج کرواتے رہے۔دمہ کا عارضہ لاحق تھا جو آہستہ آہستہ شدت اِختیار کرتا چلا جا رہا تھا۔ آخری دِنوں میں سگریٹ نوشی بھی چھوڑ دی تھی لیکن سانس کے اِس عارضہ نے اُنہیں اِس بار اس طرح ہسپتال پہنچایا کہ وہ شفایاب نہ ہوسکے۔18 نومبر کی شب فیض کو میو ہسپتال میں داخل کروایا گیا اور اُن کو بچانے کی پوری کوشش کی گئی۔لیکن تمام کوششیں ناکام ہوگئیں اور 20 نومبر 1984ء کی دوپہر 01:15 پر لاہور کے میو ہسپتال کے ایسٹ میڈیکل وارڈ میں میں وفات پاگئے۔

نون میم راشد

نون میم راشد

اردو کے عظیم شاعر۔ اصل نام نذر محمد راشد 1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے علی پور چٹھہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ابتدا میں وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت متاثر رہے اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتے تھے۔اردو شاعری کو روایتی تنگنا سے نکال کر بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا ن م راشد اور میرا جی کے سر جاتا ہے۔ 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے۔ ماورا سے اردو شاعری میں انقلاب بپا ہو گیا،اور یہ انقلاب صرف صنفِ سخن یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیوں کہ تصدق حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے، لیکن راشد نے اسلوب، موضوعات اور پیش کش کی سطح پر بھی اجتہاد کیا۔ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پرحتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔

ساغر صدیقی

ساغر صدیقی

ساغرِ صدیقی (پیدائشی نام محمد اختر ) (1928 کو امرتسر میں پیدا ہوئے،اور 19 جولائی 1974 کو لاہور میں وفات ہوئے ) ایک اردو زبان کے پاکستانی شاعر تھے۔اصل خاندان ان کا انبالے سے تھا اور وہ پیدا بھی انبالے میں ہوئے۔ سال 1964ء کا تھا۔ گھر میں ہر طرف افلاس اور نکبت کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں تعلیم کا کیا سوال! محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے، انہیں کے پاس جانے آنے لگے۔ جو کچھ‍ پڑھا انہیں سے اس کے بعد شاید ورنیکلر مڈل کے کچھ‍ درجے بھی پاس کر لیے ہوں۔ ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آکر امرتسر کی راہ لی اور یہاں ہال بازار میں ایک دکان دار کے ہاں ملازم ہو گئے جو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے بھی یہ کام سیکھ‍ لیا۔ دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دکان کے کسی گوشے میں پڑے رہتے۔ لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور اپنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔ فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے دایاں ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ‍ دن بعد منہ سے خون آنے لگا۔ اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ‍ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیں مانگے گا۔ چنانچہ 19 جولائی 1974ء صبح کے وقت اس کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔

حفیظ جالندھری

حفیظ جالندھری

ابو الاثر حفیظ جالندھری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر شہرت دی۔حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے۔حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے، جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیاء کیا، جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے، اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری نے یہ خوب صورت قومی ترانہ احمد جی چھاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا تھا اور حکومت پاکستان نے اسے 4 اگست 1954ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا تھا۔حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ابھی تو میں جوان ہوں کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیا اور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔

علامہ محمد اقبال

علامہ محمد اقبال

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا۔ چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی۔ قیام کا بندوبست کالج سے باہر کیا۔ ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938ء بمطابق 20، صفر المصفر 1357ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔علامہ اقبال کا مزار لاہور میں شاہی مسجد کے ساتھ واقع ہے۔مزار تکمیل کے آخری مراحل میں تھا کہ 13 جون 1949ء کو اسے محکمہ اوقاف کی تحویل میں لے لیا گیا اور اُس سے اگلے سال 1950ء میں (علامہ اقبال کے انتقال کے تقریباً 12 سال بعد) کوئی ساڑھے چار سال کے عرصے میں مزار کی تعمیر مکمل ہوئی۔

الطاف حسین حالی

الطاف حسین حالی

خواجہ الطاف حسین حاؔلی ، ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کے نامورشاعراورنقاد گذرے ہیں۔حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزؔو بخش تھا - ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا، اور کچھ عرصہ بعد ہی اُن کی والدہ کا دماغ ماؤف ہو گیا تو حالی کے بڑے بھائی امدؔاد حسین نے پرورش کی۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ 17 برس کی عمر میں ان کی مرضی کے خلاف شادی کر دی گئی۔ اب انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے۔حالؔی کے بچپن کا زمانہ ہندوستان میں تمدن اور معاشرت کے انتہائی زوال کا دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ جو 300 سال سے اہل ِ ہند خصوصاً مسلمانوں کی تمدنی زندگی کی مرکز بنی ہوئی تھی، دم توڑ رہی تھی۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور انفرادیت کی ہوا چل رہی تھی۔ 1856ء میں ہسار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہو گئے لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے۔ 3-4 سال بعد جہانگیر آباد کے رئیس مصطفٰی خان شیفؔتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ نواب صاحب کی صحبت سے مولانا حالؔی کی شاعری چمک اٹھی۔ تقریباَ 8 سال مستفید ہوتے رہے۔ پھر دلی آکر مرزا غاؔلب کے شاگرد ہوئے۔ غاؔلب کی وفات پر حالؔی لاہور چلے آئے اور گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت اختیار کی۔ لاہور میں محمد حسین آزؔاد کے ساتھ مل کر انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی یوں شعر و شاعری کی خدمت کی اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالی۔ وہ بیک وقت  شاعر،نثر نگار،نقّاد صاحب طرز سوانح نگار اور مصلح قوم  ہیں جنھوں نے ادبی اور معاشرتی سطح پر زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ ان کی تین اہم کتابیں "حیات سعدی، "یادگار غالب" اور "حیات جاوید" سوانح عمریاں بھی ہیں اور تنقیدیں بھی۔"مقدمۂ شعر و شاعری" کے ذریعہ  انھوں نے اردو میں باقاعدہ تنقید کی بنیاد رکھی اور شعر و شاعری کے تعلق سے اک مکمل اور حیات آفریں نظریہ مرتب کیا اور پھر اس کی روشنی میں شاعری پر تبصرہ کیا۔اب اردو تنقید کے جو سانچے ہیں وہ حالی کے بناے ہوئے ہیں اور اب جن چیزوں پر زور دیا جاتا ہے، ان کی طرف سب سے پہلے حالی  نے اپنے مقدمہ میں توجہ دلائی۔ ا پنی مسدس ( مثنوی مدؔ و جزر اسلام)  میں وہ قوم کی زبوں حالی پر خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا۔  مسدس نے سارے ملک میں جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ سر سید احمد خان کہا کرتے تھے کہ اگر روز محشر خدا نے پوچھا کہ دنیا سے اپنے ساتھ کیا لایا تو کہہ دون گا کہ حالی سے مسدس لکھوائی۔31 دسمبر 1914ء (77 سال) کی عمر میں پت میں وفات پائی۔

داغ دہلوی

داغ دہلوی

نواب مرزا خاں اور تخلص داغ تھا۔ 25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ابھی چھ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خاں کاانتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ذوق کے شاگرد تھے۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقینا بہت بڑا حصہ ہے۔ غدر کے بعد رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا یہیں انہیں”حجاب“ سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی فریاد ِ عشق اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے۔ نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کارخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ۔ فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ 1905ء میں فالج کی وجہ سے حیدرآباد میں وفات پائی۔ داغ کو جتنے شاگرد میسر آئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔

مومن خان مومن

مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔ ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

محمد ابراہیم خان ذوق

محمد ابراہیم خان ذوق

دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی، دہلی کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔

بہادر شاہ ظفر

بہادر شاہ ظفر

1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر 82 سال کے تھے جب ان کے چار بچوں کا سر قلم کرکے ان کے سامنے انگریز تھال میں سجا کر ان کے سامنے تحفے کی شکل میں لائے تھے۔ میجر ہڈسن نے ان کے چاروں لڑکوں مرزا غلام، مرزا خضر سلطان، مرزا ابوبکر اور مرزا عبد اللہ کوبھی قید کر لیا، میجر ہڈسن نے چاروں صاحبزادوں کا سر کاٹا اور ان کا گرم خون چلو سے پی کر ہندوستان کو آزاد کرنے کی چاہ رکھنے والوں سے انگریزوں نے جنگ اوربغاوت کوجاری رکھنے کا خطرناک وحشیانہ عہد کو جاری رکھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا گیا۔ بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کی داستان کے لیے 1857ء کی پہلی ہندوستانی جنگ کی اگوائی کی، انگریز سیناپتی نے انہیں دھوکے سے قتل کرنے کے لیے بلوایا اور گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ بہادرشاہ ظفر مغل خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔1837ء میں تخت پوشی کے وقت انہیں ابوالمظفر کے بدلے ابوظفر، محمد سراج الدین، بہادر شاہ غازی نام ملا تھا۔ ان کی حکومت ڈھنگ عالم سے پالم تک ہی مانا جاتا تھا۔ وہ نام ماگ کے دہلی کے چیرمین تھے اور اصل حکومت انگریزوں کے پاس تھی۔ انہوں نے اردو، عربی، فارسی، زبان کے ساتھ گھڑسواری، تلوار بازی، تیراندازی اور بندوق چلانے کی کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ ایک اچھے صوفی درشن کے جانکار فارسی میان، سولے خن میں ادیب وشاعر تھے۔ وہ 1857ء تک حکومت کے کام کاج سنبھالتے رہے۔ انگریزوں نے ان پر حکومتی مجرم اور فوجیوں قتل کے الزام میں عدالت کے ذریعہ مقدمہ چلایا، مقدمے میں پیش کیے گئے ثبو ت بہت زیادہ ظلم آمیز تھے اور قانون عام ہونے کے باوجود انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو مجرم اور خاطی قرار دیا اور ملک سے نکالنے کا جرمانہ دیا۔ بے چارگی، ملک دوست، دین دار، بزرگ 82 سال ہندوستان دھرتی ماں کے لاڈلے بہادر شاہ ظفر پر حیرت انگیز مقدمہ سونپا۔ اکتوبر 1858ء میں انہیں زندگی بھر کے لیے رنگون بھیج دیا گیا اس طرح دیش ایک محب وطن نے ملک سے دور رہ کر بھی ملک کی آزادی کے لیے خود کو قربان کرتے ہوئے اپنے قلم سے آزادی کی لڑائی کوجاری رکھا۔ اس دو ران انہوں نے جو غزلیں لکھیں وہ اپنی مہارت اورترقی کے لیے ہندو ستان کی آزادی کے کے متوالوں کے دلوں میں کشادہ جگہ رکھتی ہیں۔ رنگون میں6 نومبر، 1862ء کو اس آخری مغل خاندان 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے رہبر نے اپنی جان نچھاور کردی۔

مرزا اسد اللہ خان غالب

مرزا اسد اللہ خان غالب

نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ اردو زبان کے نامور ترین شعرا میں سرفہرست ہیں۔ آپ 27 دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ 15 فروری 1996 میں غالب اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انھوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انھوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیُّل کی بلندی اور شوخیٔ فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشِدّت سے محسوس کرتے ہیں۔ غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انھیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انھوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ اردو میں غالب پہلے شخص ہیں جو اپنے خطوظ میں اپنی شخصیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر غالب کی شاعری سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حالی نے انھیں حیوان ظریف کیوں کہا ہے۔ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی طبیعت میں ظرافت تھی۔ غالب کے کلام سے غالب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس غالب کی ہے جو خیال کی دنیا میں رہتا ہے۔ لیکن خطوط میں وہ غالب ہمیں ملتا ہے جس کے قدم زمین پر جمے ہیں۔ جس میں زندگی بسر کرنے کا ولولہ ملتا ہے۔ جو اپنے نام سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرتا۔ غالب کی زندگی سراپا حرکت و عمل ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک بے تکلفی ،بے ساختگی اور حقیقت پسندی کی موجودگی اس کے خطوط سے چھلکی پڑتی ہے۔ اخفائے ذات اور پاس حجاب کا وہ کم از کم خطوط میں قائل نظر نہیں آتا۔ غالب نے اپنے مکاتیب میں اپنے بارے میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز میں لکھا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی ایک آپ بیتی تیار ہوجاتی ہے۔ اس آب بیتی میں جیتا جاگتا غالب اپنے غموں اور خوشیوں، اپنی آرزوں اور خواہشوں، اپنی محرومیوں اور شکستوں اپنی احتیاجوں اور ضرورتوں، اپنی شوخیوں، اپنی بذلہ سنجیوں کے ساتھ زندگی سے ہر صورت نباہ کرتا ہوا ملے گا۔ شبلی نے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ، ” اردو انشا پردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام سرسید مرحوم تھے اس کا سنگِ بنیاد دراصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔“

زبان اور مصنوعی ذہانت کی روشنی سے مستفید ہوں

طلبہ، اساتذہ، محققین ،اور مختلف شعبہ جات و صنعتوں سے وابستہ افراد کے لیے ایک انقلابی اقدام۔ ۔

لغات

مختلف پاکستانی اور بین الاقوامی لغات کے ذریعے علمی و تحقیقی عمل کو آسان بنائیں۔

محظوظ ہوں

اِملا شناس

اردو اور مختلف عالمی و پاکستانی زبانوں میں املا کی اغلاط کی نشاندہی اور تصحیح کیجیے۔

ابھی آزمائیں

حرف شناس

جدید ٹیکنالوجی (حرف شناس) کے ذریعے تصاویر کو قابلِ ترمیم متن میں تبدیل کیجیے۔

استعمال کریں