تمنا کا دوسرا قدم
دنیا کا پہلا
ادبی، ثقافتی
و ترقیم ساز منہج
آج میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں اپنی زندگی کے دیرینہ خواب کو تعبیر کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اور سر جھکا کر طویل مسافت طے کر کے اس مقام تک پہنچ چکا ہوں جہاں میرا خواب، تصور سے عالمِ جِن و انس میں ظہور پذیر ہو چلا ہے. اس طویل سفر میں غالب کے مصرع ’’جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر‘‘ کی گردان نیا حوصلہ فراہم کرتی رہی مگر یہ سفر تمہاری حسین آنکھوں میں دیکھتے رہنے کی خواہش کی طرح کبھی نہ ختم ہونے والا ہے. نوادرات تمہارے خوابوں کی طرح ایک خواب ہی تو ہے جس کے ساتھ میں نے اپنے رات دن بسر کیے ہیں اور نوادرات نامی اس خواب کو تمہاری ہی طرح دل میں بسائے رکھا ہے، اور اس دوران ایک لمحے کے واسطے بھی یہ نہیں سوچا کہ نتیجہ کیا ہوگا، آج بھی میں اس بات سے بے خبر ہوں اور آئندہ بھی لا علم ہی رہوں گا کیونکہ آج تک رخشِ عمر کو بھَلا کون قابو کر سکا ہے، اگر قابو کیا جا سکتا تو کیا تم اس طرح مجھ سے دور ہو سکتی تھیں، کبھی نہیں، ، امجھے یاد نہیں، مگر ہو سکتا ہے کہ میں نے اپنے کسی خط میں تمہیں بتایا ہو کہ نوادرات دنیا میں پہلی بار تمام زبانوں کے ادب کو اکھٹا کرنے کی کوشش ہے، با الفاظ دیگر میں دریا کو کوزے میں بند کر دینا چاہتا ہوں تا کہ پھر تشنگی نہ رہے اور علم و اَدب کے دیوانے نوادرات نامی شمع سے فیضیاب ہوتے رہیں، اور اس اُجالے میں نون میم راشد کی صراحی و فانوس و گلدان و جام و سُبو کی طرح بنتے اور سنورتے رہیں. میری نظر میں یہ کوئی علمی کارنامہ نہیں ہاں مگر علم و ادب کے میدان میں کسبِ کمال کُن کا نعرہ لگانے والوں کی صدائیں دنیا تک پہنچانے کا ایک سبب ضرور ہے. نوادرات ایک ایسا سیارہ ہے جہاں علم و اَدب کے آسمان پر شاعر، ادیب، طلبہ اور اساتذہ ایک ساتھ مل کر کمند ڈالیں گے اور ایک منفرد کہکشاں بنائیں اور سجائیں گے تو فلکِ زیست پر نئے ستارے جگمگائیں گے۔