
سید ہلال رضا نقوی المعروف ہلال نقوی 18 فروری 1950 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید مزمل حسین نقوی تھا۔ سات سال کی عمر میں کراچی آ گئے۔ اور یہیں تعلیمی منازل کراچی میں طے کیں۔ کراچی میں ہی راجا صاحب محمود آباد کے قائم کردہ کالج سراج الدولہ کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ اور پھر جامعہ کراچی سے 1973 میں ایم اے اردو کیا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے 1985 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ان کا پی ایچ ڈی مقالہ بیسویں صدی اور جدید مرثیہ کے عنوان سے تھا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے 1974 سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور ان کی تعیناتی جن مختلف کالجز میں بطور استاد شعبہ اردو کے رہی۔ ان میں گورنمنٹ کالج گھوٹکی سندھ، گورنمنٹ سراج الدولہ کالج کراچی، گورنمنٹ اسلامیہ کالج کراچی اور گورنمنٹ کالج گلشن اقبال کراچی شامل ہیں۔ وہ گورنمنٹ ڈگری کالج، گلشن اقبال ،کراچی میں شعبہ اردو کے سربراہ بھی رہے ہیں اورجامعہ کراچی کے مطالعہ پاکستان کے شعبہ میں وزٹنگ پروفیسر کی خدمات پرمامور ہیں۔ نیز اردو میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی رہنمائ اور نگرانی بھی فرماتے ہیں۔ آج کل کراچی میں ہی مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ہلال نقوی رثائ ادب اور دیگر ادبی موضوعات پر لیکچرز کے لیے اور بالخصوص مرثیہ پیش کرنے کے لیے ناروے اوسلو، کنیڈا، عرب امارات، انڈیا اور دیگر کؑئ ممالک بھی با رہا مدعو کیے جا چکے ہیں. شاعری کا آغاز 1967 میں غزل گوئی سے ہوا۔ اس کے بعد نظم کی طرف توجہ رہی۔ البتہ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ زیادہ شہرت ان کو نئی طرز کے مرثیوں کے سبب ملی، جن میں انھوں نے مسدس کے تیسرے مصرعے کو غیر مقید کر دیا۔ اور اس کا بہت چرچا رہا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی جدید مرثیہ نگاری کے بہت معتبر شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کے مرثیے سن کر مرثیہ گوئی کی جانب آئے اور 1970 میں پہلا مرثیہ کہا۔ جب وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔ اور جوش ملیح آبادی سے اصلاح لی۔ جوش صاحب نے اپنے ایک خط میں ان کو اپنا شاگردِ اولین لکھا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی نے مرثیہ میں جناب نسیم امروہوی کی بھی شاگردی اختیار کی۔ مرثیئے کے علاوہ انھوں نے غزل، نظم، رباعیات اور آزاد نظموں پر بھی طبع آزمائی کی ڈاکٹر ہلال نقوی جوش کی تمام قلمی نگارشات بشمول فنِ مرثیہ کے بہترین ناقدین میں سے ہیں اور وہ اس موضوع پر اب تک چھ کتب لکھ چکے ہیں. ڈاکٹر ہلال نقوی کی تصنیفات کی فہرست درج ذیل ہے. چشمِ نم 1970 گلدستہِ اطہر پر ایک نظر 1977 جدید مرثیئے کے تین معمار 1977 امانتِ غم ( باقر امانت خانی کے مرثیے ) 1982 مقتل و مشعل (1976 ) پسِ تاریخ ( ڈاکٹر ہلال کا مرثیہ ) 1982 جمیل مظہری کے مرثیئے 1988 عرفانیاتِ جوش ( 1991 / 2011) مثنوی آب و سراب (جمیل مظہری ) 1988 ارمغانِ نسیم (مقالات ) 1992 جوش ملیح آبادی کی نادر و غیر مطبوعہ تحریریں (1992) مسدس فریاد و جوابِ فریاد ( جمیل مظہری ) 1993 اذانِ مقتل ( ڈاکٹر ہلال کے مرثیے ) 1993 بیسویں صدی اور جدید مرثیہ ( مقالہ ) 1994 جوش ملیح آبادی، شخصیت و فن (2007) جوش کے انقلابی مرثیئے (2010) اوراقِ جوش ( 2010) مرثیئے کی نایاب آوازیں (2011) جدید بیاضِ مرثیہ (2012) نسیم امروہوی کے مرثیے (2012) ڈاکٹر یاور عباس کے مرثیے (2012) جوش ملیح آبادی [5] یادوں کی برات کا قلمی نسخہ صابر تھاریانی کے گجراتی قطعات انتقادیاتِ جوش ( 2017 ) کلیات جوش (2020) ان تصانیف کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی نے اردو ادب میں مرثیہ کے حوالے سے پہلا معتبر ادبی رسالہ '''رثائی ادب '''کے نام سے ایک جاری کیا۔ اب تک اس کے چھتیس شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ اور ان میں بارہ بارہ سو صفحات کے انیس و دبیر نمبر بھی مرتب کیے گئے ہیں ۔ نیز اردو شاعروں میں اب تک غالب اور اقبال کے نام سے ہی باقاعدہ رسالے جاری ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے جوش شناسی کے عنوان سے باقاعدہ رسالہ جاری کیا ہے۔ جو صرف جوش ملیح آبادی کی تحریروں اور ان سے متعلق تحقیقات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب تک اس کے سات شمارے آ چکے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کے ناقدین اس بات کے معترف ہیں کہ جوش سے متعلق ڈاکٹر ہلال نقوی کی مسلسل تحقیق و تحریر کے باعث ان کا نام برصغیر میں جوش ملیح آبادی پر تحقیق کے حوالے سے اٹھارتی کا درجہ رکھتا ہے ۔
1950 -