
19پروفیسر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (پیدائش: 15 جون، 1916ء - وفات: 7 ستمبر، 1994ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ماہرِ لسانیات، محقق، ماہرِ تعلیم، نقاد، جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور کولمبیا یونیورسٹی کے وزٹنگ پروفیسر تھے۔ ابواللیث صدیقی 15 جون، 1916ء کو آگرہ ،برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے آگرہ، بدایوں اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے اسکالر تھے۔ انھوں نے 1943ء میں دبستان لکھنؤ پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، ابواللیث صدیقی ابتدا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ 1948ء میں لندن اسکول آف ایشین اینڈ افریقن اسٹڈیز چلے گئے اور شمالی ہندوستان میں ہند-آریا زبانوں پر تحقیق کی۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔ پہلے لاہور اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ابو اللیث صدیقی اورینٹل کالج لاہور اور جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اور اردو شعبہ کے سربراہ رہے۔ اسی دوران انھوں نے کچھ عرصے اردو لغت بورڈ کراچی کے مدیر اعلیٰ کی خدمات بھی سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ کولمبیا یونیورسٹی کے وزٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ تنقید اور تحقیق میں ڈاکٹر صاحب کو دلچسپی یکساں طور پر تھی بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ اُن کی نمایاں تصانیف میں”لکھنؤ کا دبستانِ شاعری”(1944ء)،”جرات:اُن کاعہد اور عشقیہ شاعری”(1953ء)،”نظیر اکبر آبادی: اُن کا عہد اور شاعری”(1957ء)، “تجربے اور روایت”(1959ء)،”اُردو کی ادبی تاریخ کا خاکہ”(1967ء)، “غزل اور متغزلین”(1968ء)،”ادب و لسانیات” (1970ء)،”جامع القواعد (حصہ صرف)” (1971ء)،”آج کا اُردو ادب”(1975ء)، “اقبال اور مسلک تصوف”(1977ء)، “ملفوظاتِ اقبال”(1977ء)، “ہندوستانی گرامراز بنجمن شُلزے(ترتیب و ترجمہ و تعلیقات)”(1977ء)،”اُردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ”(1981ء) اور “امراؤ جان ادا: تنقید و تبصرہ”(1992ء) شامل ہیں۔”رفت و بود”کے نام سے اُن کی خود نوشت سوانح1981ء میں سلسلہ وار شائع ہوئی جسے اُن کے شاگرد ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کتابی شکل میں مرتب کیا اور اِس کتاب کو2011ء میں ادارہ یادگارِ غالب کراچی نے شائع کیا۔”رفت و بود”صدیقی صاحب کے علی گڑھ میں گزارے دنوں کی نمایاں عکاس ہے۔اُردو لسانیات کے تناظر میں اُن کی دلچسپی کے نمایاں شعبوں میں تاریخی لسانیات، توضیحی لسانیات اور صوتیات شامل ہیں۔ لسانیات کے موضوع پر ابواللیث صدیقی کی اہم تصنیف”ادب و لسانیات”کے عنوان سے جنوری1970ء کو منظر ِعام پر آئی جسے اُردو اکیڈمی سندھ، کراچی نے شائع کیا۔یہ کتاب اُن کے علمی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے جو اُنھوں نے مختلف اوقات میں تحریر کیے اور مختلف محفلوں میں پڑھے۔اِس کتاب میں شامل مضامین کی کل تعداد اکیس ہے۔ اُنھوں نے اپنے شاگردوں کی تربیت اِس انداز سے کی کہ آج اُن کے شاگردوں کا اُردو ادب و لسانیات کے منظر نامہ پر اپنا مخصوص مقام ہے جس میں ابواللیث صدیقی صاحب کی محنت کا کمال ہے۔ پچاس سے زائد طلبا نے اُن کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے تحریر کیے۔اُن کے معروف شاگردوں میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام نمایاں ہیں۔اُنھوں نے بیس کے قریب کتابیں تحریر کیں۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی 7 ستمبر، 1994ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے اور جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
1916 - 1994