
ڈاکٹرجمیل جالبی 12 جون، 1929ء کو علی گڑھ، برطانوی ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان ہے۔ ان کے آباء و اجداد یوسف زئی پٹھان ہیں اور اٹھارویں صدی میں سوات سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے والد محمد ابراہیم خاں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ جالبی صاحب کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انھوں نے بارہ سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب جانورستان تھی جو جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا۔ ان کی ایک اہم کتاب پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے جس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور مشہور تصنیف تاریخ ادب اردو ہے جس کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی اور دیوان نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں۔ جمیل جالبی کی ایک کتاب ’’تنقید اور تجربہ‘‘ ہے جس میں چوبیس مضامین ہیں۔ ’’حیرتناک کہانیاں‘‘ کے نام سے ایک کتاب ہے، جو 1983ء میں بک فاؤنڈیشن، کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ قدیم اردو کی لغت مرکزی اردو بورڈ، لاہور نے 1983ء میں شائع کیا۔ محمد تقی میر پر بھی ان کی ایک کتاب ہے، جسے انجمن ترقی اردو کراچی نے 1981ء میں شائع کیا۔ ایک مجموعہ ’’نئی تنقید‘‘ بھی ہے جسے خادر جمیل نے 1985ء رائل بک کمپنی سے شائع کروادیا۔ اس مجموعے میں 23 مضامین ہیں۔ ان کی ایک کتاب پاکستان کلچر سے متعلق ہے۔ دراصل یہ ترجمہ ہادی حسین کی کتاب کا ہے۔ دوسرے تراجم میں ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘، ’’ایلیٹ کے مضامین‘‘ اور ’’جانورستان‘‘ مشہور ہیں۔ تحقیقات میں ’’دیوان حسن شوقی‘‘، ’’دیوان نصرتی‘‘، ’’مثنوی نظامی دکنی المعروف‘‘ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ‘‘ اہم ہیں۔ تالیفات میں بھی چار کتابوں کا ذکر ہے۔ جیسے ’’بزم خوش نفساں‘‘، اس میں شاہد احمد دہلوی کے 26؍ سوانحی خاکے ہیں۔ ’’حاجی بغلول‘‘ (منشی سجاد حسین کا مزاحیہ ناول) اس کے علاوہ ’’ن م راشد: ایک مطالعہ‘‘۔ آخری کتاب انگریزی میں ہے، نام ہے The changing world of Islam دراصل یہ کتاب ڈاکٹر قاضی اے قادر کے اشتراک سے مرتب کی گئی ہے۔ ان تمام ادبی فتوحات کے ساتھ ساتھ ایک لمبی فہرست ان پیش لفظ، مقدمات، تعارف کی ہے جو موصوف وقتاً فوقتاً لکھتے رہے ہیں۔ ان کی تعداد 45 ہے اور اگر انگریزی کے مشملات کو ملا لیا جائے تو تعداد 61(اکسٹھ) ہوجاتی ہے۔ جمیل جالبی نے اتنے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے کہ سب کے تحلیل و تجزیے کے لئے ایک تفصیلی کتاب کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 1964ء، 1973ء، 1974ء اور 1975ء میں داؤد ادبی انعام، 1987ء میں یونیورسٹی گولڈ میڈل، 1989ء میں محمد طفیل ادبی ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی طرف سے 1990ء میں ستارۂ امتیاز اور 1994ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا[2]۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 2015ء میں آپ کو پاکستان کے سب سے بڑے ادبی انعام کمال فن ادب انعام سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے 89 سال 10 ماہ 6 دن کی عمر میں 18 اپریل 2019ء کو کراچی میں وفات پائی۔
1929 - 2019