
غالبؔ کی نعتیہ شاعری
غالبؔ نے ایک موقع پر اپنی فارسی دانی اور نقش ہائے رنگا رنگ کی نمائش سے اپنی جبلیؔ وابستگی کی بابت کیا تھا
فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگ من است
ان کا یہ دعویٰ دیگر اصناف سخن اور دیگر موضوعات شعر و شاعری کی بابت درست ہو یا نہ ہو لیکن نعتیہ شاعری کے حوالے سے ان کا یہ دعویٰ صد فی صد درست اور صحیح ہے۔
اردو نعت گوئی میں غالبؔ کا کوئی شعری اثاثہ معرض وجود میں نہیں ہے راقم کی دانست کی حد تک ان کی اس مشہور و معروف غزل کا مقطع، جس کا مطلع درج ذیل ہے، تذکرۂ معراج کے حوالے اور نبی خیر الانام کے تذکار کے باعث خالص نعت کے رنگ میں شرابور ہے۔ اردو زبان میں اس مقطع کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا شعر بطور شعر نعت محفوظ نہیں ہے۔ محولہ بالا مطلع و مقطع ملاحظہ ہوں:
بزمِ شہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا،
رکھیو یارب! یہ در گنجینۂ گوہر کھلا-۱
اس کی اُمت میں ہوں میں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالبؔ ! گنبد بے در کھلا-۲
غزل کا یہ مقطع جس میں خالص نعت کا مضمون نظم ہے، دیدنی اور قابل داد ہے۔ صنعت تضاد کے حسین استعمال سے قطع نظر معنوی اعتبار سے بھی غالبؔ کا یہ نعتیہ شعر کافی
خوب صورت اور دل آویز ہے۔ واقعۂ معراج کی بلیغ تلمیح اور اس واقعہ کے سہارے آسمان کے لیے گنبد بے در کی ترکیب گنبد کے تلازمے کے بہ طور ’’کھلا‘‘ لفظ کا استعمال اور اس برگزیدہ ہستی کی اُمت میں ہونے کا بجا افتخار اور اسی حوالہ سے اپنے کام بند نہ رہنے کا شاعر
کا ایقان و اتقان۔۔۔ ان سبھی عناصر نے مل جل کر غالبؔ کے اس شعر کو نعت کا درۃ التاج
بنا دیا ہے۔
غالبؔ نے قصیدہ در منقبت علیؓ میں درج ذیل شعر کہا ہے
کس سے ہوسکتی ہے مداحیٔ ممدوح خدا
کس سے ہوسکتی ہے آرائش فردوس بریں -۳
اور اسی طرح انھوں نے مدح تجمل حسین خاں میں کیے گئے اشعار کے مابین کہا ہے
زباں پہ بار خدایا ! یہ کس کا نام آیا؟
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے-۴
کئی ارباب علم نے ان اشعار کی بابت اپنی یہ بیش بہا رائے حوالۂ قرطاس کی ہے کہ ان اشعار اور ان ہی قبیل کے دوسرے اشعار کو نعت نبوی میں شمار کرنا چاہیے، لیکن راقم ان کے اس نظریہ سے متفق نہیں ہے۔ جب تخلیق کار نے ممدوح کا نام خود ہی متعین کر دیا ہے تو کسی کو یہ حق کہاں سے پہنچتا ہے کہ وہ تخلیق کار کے منشا کے خلاف شاعر کی بیان کردہ صفات کا انتساب کسی دوسرے موصوف سے کرے، کیوںکہ ایسا کرنے پر سارے قصائد (چند کے استثنا کے ساتھ) نعت بن جائیںگے، کیوںکہ قصائد میں مبالغہ کا سکہ زمانۂ قدیم سے رواں دواں ہے۔-۵
فارسی شاعری میں غالبؔ نے نعتوں کا ایک معتدبہ ذخیرہ بہ طور یادگار چھوڑا ہے۔ فارسی شاعری کے آخری دور میں دو باکمال شاعر پیدا ہوئے، جن میں سے ایک میرزا حبیب متخلص بہ قاآنی ہیں، (سنہ ولادت ۱۲۲۲ھ) جو نسلاً و اقامۃً ایرانی ہیں اور دوسرے مرزا اسداللہ خاں غالبؔ ہیں، جو آگرہ میں ۲۷؍ دسمبر ۱۷۹۷ء میں ولادت پزیر اور دہلی میں ۱۵؍فروری ۱۸۶۹ء کو فوت ہوئے۔
مرزا غالبؔ نے فارسی شاعری کے ناتواں جسم میں نیا خون دوڑایا اور اس کو توانائی عطا کی اور خاص کر نعت کے ترانے اس غنائیت اور بلند آہنگ کے ساتھ الاپے کہ در و دیوار تک گونج اٹھے۔
مرزا مبدء فیاض سے دل و دماغ کی وہ اعلیٰ صلاحیتیں لے کر آئے تھے کہ جہاں کہیں قلم چلا دیا، لالہ و گل اور نسرین و نسترن کے پودے نمایاں ہوگئے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ہندوستان میں فارسی شاعری ایک ترک لاچین (خسرو) سے شروع ہوئی اور ایک ترک ایبک (غالبؔ) پر ختم ہوئی۔
غالبؔ نے اپنی فارسی نعتوں کے ذریعہ نعتیہ شاعری کو کافی رنگارنگی اور وسعت عطا کی۔ انھوںنے غزل، قصیدہ، مثنوی اور قطعہ کی ہیئات میں قابل قدر اور بیش بہا سرمایۂ نعت
بہ طور اثاثہ، عشاق ادب اور قارئین نعت کو مرحمت کیا۔ ان کی یہ نعتیں مضامین و اسالیب کے نقطہ ہائے نظر سے بھی متنوع اور رنگا رنگ ہیں۔ نعتوں میں ان کا انداز بیان ان کے فارسی اسلوب کی طرح سلیس اور سادہ ہے۔ ان کی مشہور نعتیہ غزل، جس کا مطلع درج ذیل ہے،
اس لیے لائق تحسین ہے، کیوںکہ اس کا ہر شعر کسی نہ کسی حدیث نبویؐ یا آیت قرآنی کی
تفسیر ہے۔
حق جلوہ گر ز طرز بیان محمد ست
آرے کلام حق بہ زبان محمد ست -۶
غالبؔ نے اپنی اس غزل میں حدیث قدسی میں لولاک لماخلقت الافلاک-۷ اور آیات قرآنی: وما ینطق عن الہویٰ ان ھواہ و حی یوحیٰ O-۸ ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ یداللّٰہ فوق ایدیہمO-۹ وما رمیت اذرمیت و لکن اللہ رمیO-۱۰ لعمرک انہم لفی سنکرئھم یعمھونO-۱۱ وغیرہ مضامین کو مدنظر رکھ کر ’’خود ہرچہ از حق ست ازاں محمد ست‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ غزل کے مقطع میں اعتراف عجز کا مضمون اللہ پاک کو ’’مرتبہ دان محمد‘‘ کہہ کر ادا کیا گیا ہے اور اس طور پر اعتراف عجز سے بھی شاعر کی رمز دانی مترشح ہوتی ہے۔ غزل کے بقیہ اشعار ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں، کیوںکہ ان میں بلا کی جدت و جودت اور ندرت ہے۔
آئینہ دار پر تو مہرست ماہتاب
شان حق آشکار زشان محمد ست
تیر قضا ہر آئینہ در ترکش حق ست
اماکشاد آں زکمان محمد ست
دانی اگر بہ معنیٔ لولاک وا رسی
خود ہر چہ از حق ست از آن محمد ست
ہر کس قسم بدانچہ عزیر ست می خورد
سوگند کردگار بجان محمد ست
واعظ حدیث سایۂ طوبیٰ فروگزار
کا نیجا سخن ز سرور وان محمد ست
بنگر دو نیمہ گشتن ماہ تمام را-۱۲
کاں نیمہ جنبشے زبنان محمد ست
در خود ز نقش مہر نبوت سخن رود
آں نیز نامور زنشان محمد ست
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم
کآں ذات پاک مرتبہ دان محمد ست-۱۳
غالبؔکے کلیات فارسی میں۳ نعتیہ مثنویاںہیںجن کی تفصیل ذیل میںرقم کی جاتی ہے۔
غالبؔ کی قصیر ترین نعتیہ مثنوی میں ۵۷ ابیات ہیں، جس کا پہلا بیت رقم ذیل ہے:
بہ نام ایزد ای کلک قدسی صریر
بہر جنبش از غیب نیرد پزیر-۱۴
دوسری مثنوی میں ابیات کی تعداد ۱۲۰ ہے اور اس کا بیت اول یوں ہے:
بعد حمد ایزد و نعت رسول
می نگارم نکتۂ چند از اصول -۱۵
تیسری مثنوی معراج کے بیان میں ہے اور اس میں کل ۲۸۰ ابیات ہیں، جن میں بیت مندرجہ ذیل، بیت اول کی حیثیت رکھتا ہے:
ہمانا در اندیشۂ روزگار
شبے بود سرحوش لیل و نہار -۱۶
(۱۲۰) ابیات پر مشتمل مثنوی کا عنوان ’’بیان نموداری شان نبوت و ولایت کہ درحقیقت پر تو نور الانوار حضرت الوہیت ست‘‘ہے۔ اس مثنوی میں آپؐ کے منشائے ایجاد عالم ہونے، آپؐ کے رحمتہ للعالمین ہونے، آپؐ کے خاتم النّبیین ہونے اور آپؐ کے متقدم بالزماں ہونے کے مضامین نادر اسلوب میں نظم کیے گئے ہیں۔
اللہ پاک نے قرآن کریم میں زندگی کی تاریکیوں کو روشن کرنے والی ذات گرامی کو نور سے تعبیر کیا ہے۔ اس سلسلے کی چند آیات ملاحظہ ہوں:
قدجاء کم من اللہ نور و کتٰب مبین-۱۷
ترجمہ : بے شک تمھارے پاس اللہ کی جانب سے نور آیا اور روشن کتاب۔
یآایہا الناس قد جا ٔ کم برھان من ربکم و انرلنا الیکم نوراً مبینا-۱۸
ترجمہ : اے لوگو بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمھاری جانب روشن نور اتارا۔
یاایہا النبی انا ارسلنٰک شاہداً و مبشراً و نذیراًO
وداعیاً الی اللّٰہ باذنہ و سراجاً منیراO-۱۹
ترجمہ : اے نبی ہم نے آپؐ کو بھیجا گواہ اور خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والا اور چمکتا ہوا چراغ۔
غالبؔ نے اپنی اس مثنوی میں نبی اکرمa کے نور ہونے کے مضمون کو متعدد طریقوں سے واضح کیا ہے۔ صرف دو ابیات ملاحظہ ہوں:
جلوۂ اوّل کہ حق بر خویش کرد
مشعل از نور محمد پیش کرد
شدعیاں زاں نور در بزم ظہور
ہرچہ پنہاں بود از نزدیک و دور -۲۰
شاعر نے اس مثنوی میں استغاثہ اور استعداد کے مضامین بھی نظم کیے ہیں اور نبی ختمی مآبa سے مدد طلبی کو اللہ پاک سے مدد طلبی پر محمول کیا ہے۔ شاعر نعت نے اس کی وضاحت دریا موج جام اور آب از جام سے کرتے ہوئے کیا ہے:
برنیا ید کار بے فرمان شاہ
لیک اینہاست باخاصان شاہ
-
ہر کہ اور نور حق نیرو فرا ست
ہر چہ ازوی خواستی ہم از خدا ست
-
بر لب دریا گر آب خوردۂ
آب از موجی بہ جام آوردۂ
-
آب از موج آید اندر جام تو
لیکن از دریا بود آشام تو-۲۱
غالبؔ نے اس مثنوی میں آپؐ کے رحمتہ للعالمین-۲۲، اور ’’خاتم النّبیین‘‘-۲۳ ہونے پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس حقیقت کا برملا اظہار کیا ہے کہ عالم خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں، لیکن ان سب کے رحمۃ للعالمین اور ان سب کے خاتم المرسلین صرف نبی ختمی مرتبتa ہیں۔ یہاں بھی غالبؔ نے قرآن و احادیث سے استفاضہ و استفادہ کیا ہے۔ چند متعلقہ ابیات ذیل میں رقم کیے جاتے ہیں:
آں کہ مہر و ماہ و اختر آفرید
می تو اند مہر دیگر آفرید
لیک دریک عالم از روئے یقیں
خود نمی گنجد دو ختم المرسلین
-
یک جہاں تاہست یک خاتم بس است
قدرت حق را نہ یک عالم بس است
-
خواہد از ہر ذرہ آرد عالمے
ہم بود ہر عالمے را خاتمے
-
ہر کجا ہنگامۂ عالم بود
رحمۃ للعالمینے ہم بود
-
کثرت ابداع عالم خوب تر
یا بیک عالم دو خاتم خوب تر
-
غالبؔ ایں اندیشہ نہ پزیرم ہمی
خردہ ہم برخویش می گیرم ہمی
-
اینکہ ختم المرسلینش خواندۂ
دانم از روئے یقینش خواندۂ
-
ایں الف لامے کہ استفراق راست
حکم ناطق معنی اطلاق راست
منشاء ایجاد ہر عالم یکیست
گر دو صد عالم بود خاتم یکیست
-
خود ہمی گوئی کہ نورش اول ست
ازہمہ عالم ظہورش اول ست
-
اوّلیت رابود شانے تمام
کی بہر فردے پزیرد انقسام
-
جوہر کل بر نتابد تثنیہ
در محمد رہ نیا بد تثنیہ-۲۴
غالبؔ کی دوسری نعتیہ مثنوی میں ابیات کی مجموعی تعداد ۵۷ ہے۔ اس مثنوی کا بیت اوّل بہ نام ’’ایزد ای کلک قدسی صریر + بہر جنبش از غیب نیرد پزیر‘‘ ہے
اللہ پاک نے قرآن پاک میں نبی ختمی مرتبتa کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ خودنبی آخرالزماںaپر درود(تعریفوں)کی بارش نازل فرماتا ہے،اس کے فرشتے نبی اکرمa کی خدمت اقدس میں درود کا سوغات بھیجتے ہیں اور اس کے بعد مومنین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی خلاصۂ کائنات نبی امیa پر صلوۃ و سلام بھیجیں۔ متعلقہ آیت کریمہ ملاحظہ ہو:
ان اللّٰہ و ملٰئکتہ یصلّون علی النبیّ یا ایہا الذین اٰمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیماO-۲۵
غالبؔ کس قدر حسین انداز میں ’درود‘ کو ’عنوان دفتر‘ اور ’دیباچۂ نعت، قرار دیتے ہوئے
کہتے ہیں
درودے بہ عنوان دفتر نویس
بہ دیباچہ نعت پیمبر نویس-۲۶
اس مثنوی میں تلمیحات کا استعمال کافی دل کش ہے۔ غالبؔ نے تلمیحات سے اظہار مدعا کا کام بڑی خوبی سے لیا ہے۔ اس مثنوی کے معراج سے متعلق ابیات کافی جدت اور خاصی ندرت کے حامل ہیں۔ خالص نعت کے ابیات بھی کافی جان دار ہیں۔ ذیل میں صرف تین ابیات نقل کیے جا رہے ہیں۔ جن میں غالبؔ نے پر جبرئیل ؑ کو آپؐ کے دستر خوان کے لیے ’مگس راں‘ حضرت خلیلؑ کو آپ کے ’خوان گستری‘ کے لیے پیش کار، آپؐ کے جمال کو روحانیوں کے لیے ’دل افروز‘ اور آپؐ کے خیال کو یونانیوں کے لیے ’نظر سوز‘ بتلاتے ہوئے اس حقیقت کا اکتشاف کیا ہے کہ سفر معراج خاکی اور نوری دونوں اجسام کے لیے بابرکت اور باعث فخر ہے۔
مگس ران خوانش پر جبرئیل
بخواں گستری پیشکارش خلیل
-
جمالش دل افروز روحانیاں
خیالش نظر سوز یونانیاں
بدم حرز بازوی افلاکیاں
بہ پیوند پیرایۂ خاکیاں-۲۷
غالبؔ کی تیسری نعتیہ مثنوی کا عنوان ہی معراج-۲۸ہے۔ یہ مثنوی غالبؔ کی مثنویوں میں طویل ترین ہے۔ اس میں ابیات کی تعداد ۲۸۰ ہے اور اس کا پہلا بیت ہے:
ہما نا در اندیشۂ روزگار
شبے بود سر جوش لیل و نہار
شاعر نے اس مثنوی میں جدت خیالات، جدت تشبیہات و استعارات، جدت ادا، جدت تراکیب غرضے کہ ہر قسم کی جدتوں کے دریا بہا دیے ہیں اور آپؐ کے اس علوی سفر کو منزل بہ منزل دکھلاتے ہوئے ہر فلک سے متعلق ابیات میں اسی فلک کے تلازمے استعمال کیے ہیں۔ صرف چند ابیات تبرکاً نقل کیے جاتے ہیں:
خداوند گیتی خریدار تست
شبت ایں لے روز بازار تست
-
چنیں لنگر ناز سنگیں چرا
نہ طور اظہار تمکیں چرا
-
بہ دور تو شدلن ترانی کہن
فصاحت مکرر نسنجد سخن
-
ترا خواست گار ست بر ذان پاک
ہر آئینہ ازلن ترانی چہ باک
-
نگویم کہ یزداں ترا عاشق ست
ولے زاں طرف جذبۂ صادق ست
-
جہاں آفریں را خور و خواب نیست
تو فارغ بہ بستر چہ خسپی با یست-۲۹
-
عطارد بآہنگ مدحت گری
زباں جست بہر زباں آوری
-
دریں صفحہ مدحے کہ من می کنم
خود از گفتۂ خود سخن می کنم
کہ اے ذرۂ گرد راہ تو من
زخود رفتۂ جلوہ گاہ تومن
-
نظر محو حسن خداداد تو
ستم کشتۂ غمزۂ داد تو
-
برفتار، رخش تو، اختر نشاں
بگفتار لعل تو، گوہر فشاں -۳۰
-
نہ در پنجہ زور و نہ درسینہ دم
فرو ماند بے حس چوشیر علم-۳۱
-
احد کسوت احمدی یافتہ
دم دولت سرمدی یافتہ
-
بکوشش زطبع وفا کوش او
ہماں میم او حلقۂ گوش او-۳۲
غالبؔ کا حسب ذیل نعتیہ قطعہ بھی کافی بیش بہا اور مشہور ہے۔ اس میں تین صاحب کتاب مرسلین کے قرب حق کے تلازمے بڑی خوب صورتی کے ساتھ نظم کیے گئے ہیں، جن سے نبی ختمی مآب کے افضل المرسلین ہونے
ہونے کی وضاحت ہوتی ہے۔
سہ تن ز پیمبران مرسل
گشتند بقرب حق مشرف
عیسیٰؑ ز صلیب و موسیٰؑ ز طور
ختم الرسل از براق و رفرف -۳۳
غالبؔ کے قصائد کی تعداد ۶۴ ہے، جن میں سے ایک توحید میں، ۲ نعت میں، ایک نعت و منقبت میں مشترک، ۸ منقبت میں اور بقیہ سلاطین و نوابین، امراء و ملکہ وکٹوریہ اور دیگر اکابر ملک و قوم کی مدح سرائی میں ہیں۔
جس نعتیہ قصیدہ کا مطلع ہے:
مراد لیست بہ پس کوچۂ گرفتاری
کشادہ روئے تراز شاہدان بازاری-۳۴
اس میں (۶۵) اشعار ہیں۔ اس قصیدہ کے چند چیدہ اشعار ذیل میں رقم کیے جاتے ہیں:
چو مژدہ دوست نوازم چو فتنہ خصم گداز
بدل زسادگی و بازباں ز پرکاری
بہشت ریزدم از گوشۂ ردا کہ مرا
زخوان نعت رسولست زلہ برداری
مطاع آدم و عالم محمدؐ عربی
وکیل مطلق و دستور حضرت باری
شہنشہے کہ دبیران دفتر جاہش
بہ جبرئیل نویسند عزت آثاری
افاضۂ کرمش در حقائق آفاق
بسان روح در اعضائے جانور ساری
افادۂ اثرش بر قوائم افلاک
بہ مشکل رعشہ بر اندام طاری
متاع او بہ تماشا سپرد ارزانی
حدوث او بقدم داد گرم بازاری-۳۵
غالبؔ کے دوسرے نعتیہ قصیدہ میں سو (۱۰۰) اشعار ہیں اور اس کا مطلع رقم ذیل ہے:
آں بلبلم کہ درچمنستاں بشاخسار
بود آشیان من شکن طرۂ بہار-۳۶
اس قصیدہ میں مقامی رنگ کافی چوکھا ہے۔ نعت میں ’دہلی‘ اور ’بنگالہ‘ کا استعمال ملاحظہ ہو:
داغے بدل ز فرقت دہلی نہادہ ام
کش غوطہ دادہ ام بہ جہنم ہزار بار
-
بخت از سواد کشور بنگالہ طرح کرد
برخویش رخت ماتم ہجران آں دیار-۳۷
-
قصیدہ کے درج ذیل شعر میں میم احمد کی بحث ملاحظہ ہو:
باید نخست میم ز احمد فراگر فت
کاں میم از میانہ رفت واحد گشت آشکار-۳۸
ایک اچھی نعت کی تخلیق کے لیے شاعر کی کدو کاوش ملاحظہ ہو:
می خواستم کہ شاید مدح تراکنم
دامان و جیب پر زگہر ہائے شاہوار
در پیچ و تاب عرض جنون شمار شوق
ابیات راز صد برسانم بصد ہزار
ہر لفظ را بقافیہ آرم ہزار جا
ہر پردہ را بولولہ سنجم ہزار بار
اما ادب کہ قاعدہ دان بساط تست
داد از نہیب حوصلۂ آزر افشار
از بسکہ ہر جگہ نمک دور باش ریخت
گردید خامہ درکنم انگشت زینہار
دیگر چہ گفت گفت کہ اے غالبؔ حزیں
دیگر چہ گفت گفت کہ اے رند خاکسار
ہر چند شوق تشنۂ عرض عقیدت ست
اما توؤ ستایش ممدوح کرد گار
از نا کسی بنال و جبیں برز میں بسائی
کلک و ورق بیفگن و دست دعا برار
تاکسوت وجود شب و روز رابد ہر
از تاب مہر و پر تو ماہ ست پودو تار
تا سینہ راست نالہ در انداز کاؤ کاؤ
تادیدہ راست جوش نگہ ساز خار خار
تا سجدہ راست در رہ حق مژدۂ قبول
تا عذر راست بروز بخشش نوید بہار
عزم مجاہدان تو با چرخ ہمعناں
سعی موافقان تو با خلد ہم کنار
دایم زوضع چرخ ثوابت محیط باد
برتارک عدوے تو ابر تگرگ بار-۳۹
غالبؔ کے تیسرے قصیدے کا مطلع درج ذیل ہے۔
چوں تازہ کنم در سخن آئین بیاں را
آواز دہم شیوہ ربا ہمنفساں را-۴۰
اس قصید میں کل (۵۵) اشعار ہیں۔ اس کا عنوان ہے ’’قصیدہ مشترک درنعت و منقبت‘‘ اس میں مضامین نعت و منقبت باہم مدغم ہیں۔ حضرت حسانؓ نے اپنی ایک نعت میں حمد و نعت کا ادغام کیا ہے۔ اس نعت کا پہلا شعر ہے:
اغر علیہ للنبوۃ خاتم
من اللّٰہ مشھود یلوح و یشھد
ترجمہ: آپؐ پر مہر نبوت درخشاں و تاباں ہے، وہ اللہ پاک کی جانب سے ایک دلیل ہے۔ وہ چمکتی ہے اور گواہی دیتی ہے۔
اختتامِ نعت پر حضرت حسان نے جو حمدیہ اشعار کہے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
تعالیت ربّ الناس عن قول من دعا
سواک الٰہا انت اعلیٰ و امجد
ترجمہ: اے لوگوں کے رب تیری شان اس کے قول سے بلند ہے جو تیرے علاوہ کو پکارتا ہے، تو بہت بلند اور بڑائیوں والا ہے۔
لک الخلق و النعماء کلہ
فایاک نستہدی و ایاک نعبد-۴۱
ترجمہ: حیات آفرینی، نفع رسانی اور حکمرانی صرف آپؐ کے لیے ہے۔ ہم آپؐ ہی سے مدد چاہتے ہیں اور اے اللہ ہم آپ ہی کی پرستش کرتے ہیں۔
حضرت کعبؓ بن زبیر کے مشہور قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ میں نعت و منقبت کا دل کش ادغام ہے اور یہ ادغام منشائے رسولa کے عین مطابق ہے۔ آپؐ نے اس قصیدہ کو سماعت فرما کر اس قصیدۂ نعت کے تخلیق کار سے فرمایا تھا ’’کاش تم اس میں انصار کا ذکر خیر بھی کرتے کیوںکہ وہ اس کے مستحق ہیں‘‘-۴۲چناںچہ کعبؓ نے اس قصیدہ میں منقبت اصحاب رسولa کا اضافہ کرکے اشعار کی تعداد بڑھا دی۔
غالبؔ کے محولہ بالا قصیدہ سے چند چیدہ اشعار ملاحظہ ہوں:
گر بارخ عشاق تو تشبیہ دھندش
گلگونہ شود خلد بریں روئے خزاں را
نازم بکسانے کہ بہ تشبیہ خم تیغ
دیدند برا بروئے تو ماہ رمضاں را
رفتار تو آں کرد بافلاک ز شوخی
کز چاک بود خندہ بر افلاک کتاں را
ہر چند شنا سندۂ ہر راز شناسم
آں چشم نہاں بیں و ضمیر ہمہ واں را-۴۳
از غالبؔ دل خستہ مجو منقبت و نعت
دریاب بہ خون جگر آغشتہ فغاں را-۴۴
غالبؔ کی نعت گوئی کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ انھوںنے وفور شوق میں جذبات کو بے لگام نہیں ہونے دیا بلکہ ہر جگہ پاس ادب ملحوظ رکھا ہے۔ چناںچہ وہ ایک نعتیہ قصیدہ میں اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہر چند شوق تشنۂ عرض عقیدت ست
اما تو و ستایش ممدوح کردگار
-
از نا کسی نہال و جبیں بر زمین بسای
کلک و ورق بیفگن و دست دعا برار-۴۵
شاعر موصوف نے ایک دوسرے قصیدے میں اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مؤثر انداز میں پیغمبر ختمی مآبa سے فریاد کی ہے:
فریاد رسا داد زبے برگئی ایماں
کایں نخل بہ تاراج فنا رفت خزاں را-۴۶
شاعر اسی قصیدے کے ایک شعر میں کس حسرت سے کہتا ہے کہ عمر کے چالیس سال ہنگاموں میں گزر گئے اور دکان کا سرمایہ کھیل کود میں تلف ہوگیا۔
از عمر چہل سال بہ ہنگامہ سر آمد
سرمایہ بہ بازیچہ تلف گشت دکاں را-۴۷
غالبؔ اسی قصیدے کے ایک دوسرے شعر میں رقم طراز ہیں کہ اگر حشر میں سجدہ کا نشان ان کی پیشانی پر تلاش کیا گیا تو وہ کیا جواب دیں گے؟
گیرم کہ نہادم بود از سجدہ لبالب
اے وائے گر از ناصیہ جویند نشاں را
شرع آں ہمہ خود بیں و من این مایہ سبک سر
کز ساقیٔ کوثر طلبم رطل گراں را-۴۸
غالبؔ نے عرفیؔ کی طرح نعت کے ضمن میں زور دار تعلّی کی ہے۔ انھوں نے ایک نعتیہ قصیدہ میں کہا ہے کہ وہ زمانہ گزر گیا، جب شعر و سخن میں میرے ہم عصر مجھ سے کبیدہ خاطر رہا کرتے تھے، اب تو میں شعرائے متقدمین کو بھی پیچھے چھو ڑ چکا ہوں۔ شاعر نے اس میں ’’سومنات‘‘ اور ’’زنار‘‘ سے مقامی فضا قائم کی ہے۔
مسنج شوکت عرفی کہ بود شیرازی
مشو اسیر زلائی کہ بود خو انساری
بہ سومنات خیالم در آئی تا بینی
رواں فروز بر دوش ہائے زناری
شاعر نے اس نعتیہ قصیدہ کی مدح میں حدوث و قدم کی نازک اور دقیق بحث
سہل الفہم انداز میں چلائی ہے، پھر خود ہی معاملہ کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کہا ہے۔
چنیں کہ می نگرم جلوہ حجاب گداز
چہ مشکل ست دگر خویشتن نگہداری
می مشاہدہ پر زور و من ز سادہ دلی
خورم چو بیش کنم حرص بیش تر خواری
سخن مذاق دگر بافت شورشے دارد
نمک فشانیٔ مستی بہ مغز ہشیاری-۵۰
غالبؔ کی نعتیہ شاعری کی امتیازی خصوصیات ہیں: الفاظ کا حسن انتخاب، ایجاز، رمزیت و ایمائیت، دُشوار پسندی، دل نشینی، تہ داری، ندرت اسلوب، حقائق نگاری، بندش کی چستی، ترتیب الفاظ میں موزونیت، عبارت میں متانت اور حلاوت کی لطیف آمیزش، واقعات کی سچی تصویرکشی، جاذب سامعہ موسیقی، جدت طرازی، الفاظ میں شکوہ کلام میں پختگی، بیان میں زور، فکر میں لطافت، تخیل میں بلندی، تشبیھات و استعارات میں ندرت، اظہار میں خلوص، اسلوب میں بداعت، صنائع و بدائع کا دل کش استعمال اور حفظ مراتب کا پاس۔۔۔ شاعر موصوف کی نعتوں سے کماحقہ مستفیض و مستفید ہونے کے لیے عصری حالات، مذہبی علوم، قرآنی اور اسلامی مصطلحات، انبیائے سابقہ و دیگر صلحائے عالم کے واقعات و واردات اور پیغمبر مدنی کے متعلقین و متعلقات سے واقفیت اور فلسفیانہ مسائل سے روشناسی ضروری ہے۔
حواشی و تعلیقات
-۱۔ دیوان غالب، غالب صفحہ ۱۱) مطبع محبوب المطابع برقی پریس دہلی، بار سوم ستمبر ۱۹۶۱ء
-۲۔ ایضاً ص ۱۲ -۳۔ ایضاً ص ۱۸۵
-۴۔ ایضاً ص ۱۷۶
-۵۔ نبی ختمی مآبa کی ذات گرامی افضل خلائق خداوندی و گل سرسبد کائنات ہے۔ آپؐ کی ذات کے مافوق ذات الٰہ کے سوا کچھ نہیں ہے آپؐ کی شان ارفع و اعلیٰ کی بابت جو کچھ بھی کہا جائے، وہ آپؐ کی بلند و بالا شان سے فروتر ہے۔ کائنات میں کوئی شئے آپؐ کے لیے مشبہ بہ بننے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ذات الہٰ اور ذات خاتم المرسلینa کے مابین ’’قاب قوسین او ادنیٰ‘‘ کی حد بندی ہے۔ اس حد بندی کو توڑنا اور عبد کو معبود بنا دینا شرک ہے، جس کی بیخ کنی کے لیے آپؐ مبعوث فرمائے گئے۔ حضرت مولانا عبدالعزیز محدث دہلوی نے درست فرمایا ہے:
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نور القمر
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ترجمہ: اے جمال والے اور اے سردار بشر! آپؐ کے تابناک چہرے سے چاند روشنی حاصل کرتا ہے۔ آپؐ کے شایان شان نعت کہنا ممکن نہیں۔ مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ خدا کے بعد آپؐ ہی سب سے افضل ہیں۔
-۶۔ کلیات غالب، (مکمل کلام فارسی مرزا اسداللہ خاں غالبؔ) غالب، مرتبہ امیرحسن نورانی، صفحہ ۶۰، ناشر راجا رام کمار بک ڈپو، وارث مطبع منشی نول کشور، سنہ اشاعت ۱۵؍ فروری ۱۹۶۸ء
-۷۔ مشہور حدیث ’’لولاک لما خلقت الا فلاک‘‘ ۔۔۔ اگرچہ یہ حدیث کسی کتاب حدیث میں دیکھی نہیں گئی مگر مضمون اس کا صحیح ہے۔ الکلام المبین فی آیت رحمتہ للعالمین مؤلفہ مولانا مفتی محمد عنایت احمد، صفحہ ۳، حاشیہ -۲، مطبوعہ مطبع نامی لکھنؤ اشاعت اگست ۱۸۹۵ء بار دوم۔
-۸۔ پارہ ۲۷، سورۃ النجم، آیت ۳ و ۴ ۔ ترجمہ اور نہ اپنی خواہش سے منھ سے بات نکالتے ہیں۔ یہ تو حکم خدا کہتے ہیں، جو بھیجا جاتا ہے۔
-۹۔ پارہ ۲۶، سورۃ الفتح، آیت ۱۰۔ ترجمہ : وہ جو آپ کی بیعت کرتے ہیں، وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔
-۱۰۔ پارہ ۹، سورۃ الانفال، آیت ۱۷۔ ترجمہ: اے محبوب ! وہ خاک جو آپؐ نے پھینکی، آپؐ نے نہ پھینکی، وہ اللہ نے پھینکی تھی۔
-۱۱۔ پارہ ۱۴، سورۃ الحجر، آیت ۷۲۔ ترجمہ: آپؐ کی جان کی قسم بے شک یہ لوگ اپنے نشہ میں بہک رہے ہیں۔
-۱۲۔ پارہ ۲۷، سورۃ القمر، آیت ۱۔ ترجمہ: قیامت نزدیک آگئی اور چاند شق ہوگیا۔ اس سے پیوستہ شعر میں مہر نبوت کا ذکر خیر ہے۔ اس سلسلے میں حضرت سائبؓ بن یزید کی حدیث ملاحظہ ہو، جس میں مہر نبوت کی تشبیہ اس طرح رقم ہے ’’فاذا ھو مثل زر الحجلۃ‘‘ (تو وہ (مہر نبوت) مسہری کی گھنڈیوں جیسی تھی) شمائل ترمذی، امام المحدثین محمد بن عیسیٰ بن سورہ الترمذی، ترجمہ خصائل النبوی، مولوی محمد زکریا۔ صفحہ ۱۶، کتب خانہ، محیوی، سہارنپور، (گھنڈی کبوتر کے انڈے کے برابر بیضوی شکل میں اس پردہ میں لگی ہوتی ہے، جو مسہری پر لٹکایا جاتا ہے)
-۱۳۔ کلیات غالب، صفحہ ۶۱ -۱۴۔ ایضاً ۴۱۹
-۱۵۔ ایضاً ۳۸۳ -۱۶۔ ایضاً ۴۲۲
-۱۷۔ پارہ ۶، سورۃ المائدہ ، آیت ۱۵-۱۸۔ پارہ ۶، سورۃ النسا، آیت ۱۷۴
-۱۹۔ پارہ ۲۲، سورۃ الاحزاب، آیت ۴۵ و ۴۶
-۲۰۔ کلیات غالب، صفحہ ۳۸۳ -۲۱۔ ایضاً ص ۳۸۳
-۲۲۔ ’’وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین‘‘ پارہ ۱۷، سورۃ الانبیاء ۔ آیت ۱۰۷ ۔ ترجمہ : اور ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔
-۲۳۔ ’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین‘‘ پارہ ۲۲، سورۃ الاحزاب، آیت۴۰
ترجمہ : محمدa تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ وہ تو اللہ کے رسول ہیں اور تمام انبیا کے ختم پر ہیں۔
-۲۴۔ کلیات غالب، ص ۳۸۹ و ۳۹۰
-۲۵۔ پارہ ۲۲، سورۃ الاحزاب، آیت ۵۶
-۲۶۔ کلیات غالب، ص ۴۱۹ -۲۷۔ ایضاً ص ۴۲۱ و ۴۲۲
-۲۸۔ سبحٰن الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بٰرکنا حولہ لنریہ من اٰیٰتنا ط انہ ھو السمیع العیلمO پارہ ۱۵ ، سورۂ بنی اسرائیل، آیت ۱ ۔ ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصا تک لے گئی۔ جس (مسجد اقصا) کے گردا گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے کہ ہم اسے اپنی عظیم الشان نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
معراج کے لغوی معنی زینہ ہیں۔ عرف عام میں رجب کی ستائیسویں شب کو سنہ نبوی میں نبی ختمی مآبa کے مسجد حرام سے مسجد اقصا اور وہاں سے آسمان اور پھر اس کے آگے عجائب ملکوت و غرائب قدرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے ملا اعلیٰ تشریف لے جانے اور خالق کائنات سے شرف ملاقات حاصل کرنے اور دیدار الٰہی سے مستفیض ہونے کے واقعہ کو معراج کہتے ہیں۔ لفظ معراج کا مادہ ع ۔ ر ۔ ج ہے چوںکہ احادیث میں الفاظ ’’عرج بی‘‘ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ اس لیے اس واقعہ مبارکہ کے لیے معراج لفظ مخصوص ہوگیا۔ معراج کے معنی زینہ بھی ہیں۔ چوںکہ عروج و ارتقا منزل بہ منزل ہوا تھا، اس لیے واقعہ باطنی کے لیے یہ ظاہری تشبیہ بھی خوب ہے۔ حدیثی و قرآنی حوالہ جات کے لیے راقم کی کتاب ’’نعتیہ شاعری کا ارتقاء ص ۳ ۴ ۲ (عربی و فارسی کے خصوصی مطالعہ) کی طرف رجوع کریں۔ آزادؔ
- ۲۹۔ کلیات غالب۔ ص ۴۲۴ و ۴۲۵
- ۳۰۔ ایضاً ص ۴۲۷ و ۴۲۸ -۳۱۔ ایضاً ص ۔ ۴۳۳ - ۳۲۔ ایضاً ص ۴۳۷
- ۳۳۔ ایضاً ص ۸ ۷- ۳۴۔ ایضاً ص ۴۷۳ - ۳۵۔ ایضاً ص ۴۷۴ و ۴۷۵
- ۳۶۔ ایضاً ص ۴۷۷ - ۳۷۔ ایضاً ص ۴۷۹ - ۳۸۔ ایضاً ص ۴۸۰ - ۳۹۔ ایضاً ص ۴۸۱ و ۴۸۲ - ۴۰۔ ایضاً ص ۴۸۲
- ۴۱۔ الانصار، ڈاکٹر محمد اسمٰعیل آزاد فتح پوری ، ص ۲۵۶ و ۲۵۷، مطبوعہ نظامی آفسیٹ پریس لکھنؤ اشاعت ۱۹۹۲ء
- ۴۲۔ سیرت النبی کامل، ابن ہشام، مترجمہ مولانا عبدالجلیل صدیقی و مولانا غلام رسول مہرؔ ص ۶۱۹، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس دہلی نمبر ۳، اشاعت ۱۹۸۵ء
- ۴۳۔ کلیات غالبؔ، ص ۴۸۳، ۴۸۴ - ۴۴۔ ایضاً ص ۴۸۵
- ۴۵۔ ایضاً ص ۴۸۱ - ۴۶۔ ایضاً ص ۴۸۴
- ۴۷۔ ایضاً ص ۴۸۴ - ۴۸۔ ایضاً ص ۴۸۴
- ۴۹۔ ایضاً ص ۴۷۴ - ۵۰۔ ایضاً ص ۴۷۵
تحریر: ڈاکٹر محمد اسمٰعیل آزاد فتح پوری