گردن میں ہیں وہ باہیں گردش میں ہیں پیمانے
گردن
میں
ہیں
وہ
باہیں
گردش
میں
ہیں
پیمانے
کیا
دین
ہے
کیا
دنیا
شاعر
کی
بلا
جانے
کچھ
سیکھ
سکیں
شاید
آبادیاں
شہروں
سے
اے
راہروو
ٹھہرو
کچھ
کہتے
ہیں
ویرانے
مطرب
وہ
اٹھے
پردے
ساقی
وہ
کھلے
عقدے
ہاں
یوں
ہی
دمادم
دے
پیمانوں
پہ
پیمانے
ہم
عشق
سے
کیا
واقف
واقف
ہیں
تو
صرف
اتنا
آغاز
ہلاکت
ہے
انجام
خدا
جانے
جو
غنچہ
و
شبنم
تھے
کل
رات
کے
ہونٹوں
پر
اب
صبح
کے
کانوں
پر
نشتر
ہیں
وہ
افسانے
اے
جوشؔ
الجھتا
ہے
کیوں
شیخ
سبک
سر
سے
وو
عشق
کو
کیا
سمجھے
وہ
حسن
کو
کیا
جانے