اٹھی وہ گھٹا رنگ سامانیاں کر
اٹھی
وہ
گھٹا
رنگ
سامانیاں
کر
گہر
پاشیاں
کر
زر
افشانیاں
کر
صراحی
جھکا
اور
دھومیں
مچا
دے
گلابی
اٹھا
اور
گل
افشانیاں
کر
مٹا
داغ
ہوش
اور
مدہوش
بن
جا
اٹھا
جام
زر
اور
سلطانیاں
کر
نگاہوں
سے
برسا
دے
ابر
جوانی
مئے
لالہ
گوں
سے
گلستانیاں
کر
سمندر
پہ
چل
اور
الیاس
بن
جا
ہواؤں
پہ
اڑ
اور
سلیمانیاں
کر
سکوں
پاؤں
چومے
وہ
ہلچل
مچا
دے
خرد
سر
جھکا
دے
وہ
نادانیاں
کر
علم
کھول
کر
جوشؔ
بد
مستیوں
کے
جہاں
داریاں
کر
جہاں
بانیاں
کر