کہتے ہیں کہ اب ہم سے خطا کار بہت ہیں
کہتے
ہیں
کہ
اب
ہم
سے
خطا
کار
بہت
ہیں
اک
رسم
وفا
تھی
سو
وفادار
بہت
ہیں
لہجے
کی
کھنک
ہو
کہ
نگاہوں
کی
صداقت
یوسف
کے
لیے
مصر
کے
بازار
بہت
ہیں
کچھ
زخم
کی
رنگت
میں
گل
تر
کے
قریں
تھے
کچھ
نقش
کہ
ہیں
نقش
بہ
دیوار
بہت
ہیں
راہوں
میں
کوئی
آبلہ
پا
اب
نہیں
ملتا
رستے
میں
مگر
قافلہ
سالار
بہت
ہیں
اک
خواب
کا
احساں
بھی
اٹھائے
نہیں
اٹھتا
کیا
کہئے
کہ
آسودۂ
آزار
بہت
ہیں
کیوں
اہل
وفا
زحمت
بیداد
نگاہی
جینے
کے
لیے
اور
بھی
آزار
بہت
ہیں
ہر
جذبۂ
بے
تاب
کے
احکام
ہزاروں
ہر
لمحۂ
بے
خواب
کے
اصرار
بہت
ہیں
پلکوں
تلک
آ
پہنچے
نہ
کرنوں
کی
تمازت
اب
تک
تو
اداؔ
آئنہ
بردار
بہت
ہیں