چمکتی ہوئی دھوپ تیزی سے نکلی
چمکتی
ہوئی
دھوپ
تیزی
سے
نکلی
گزرتی
ہوئی
بارشوں
کو
بلانے
ہواؤں
نے
ضد
کی
کہ
ہم
بھی
چلیں
گے
لگیں
ٹھنڈکیں
اپنے
پیکر
سجانے
ملی
تھی
خبر
موسموں
کو
کہیں
سے
کسی
کنج
گلشن
میں
ہیں
دو
دوانے
وہ
برسوں
کے
بعد
آج
یکجا
ہوئے
ہیں
جو
بیتی
ہے
اک
دوسرے
کو
سنانے
درختوں
نے
جھک
جھک
کے
تعظیم
بخشی
بڑھے
سبزہ
و
گل
بھی
آنکھیں
بچھانے
کبھی
ان
کے
چہروں
کو
بارش
نے
چوما
کبھی
ان
کا
دامن
بسایا
صبا
نے
کبھی
ان
کی
آنکھوں
میں
سورج
نے
جھانکا
کبھی
ڈال
دی
ان
پہ
چادر
گھٹا
نے