کثرت جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو


کثرت جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو

جس کی صورت نظر آئے وہی صورت سمجھو

غم کو غم اور نہ مصیبت کو مصیبت سمجھو

جو در دوست سے مل جائے غنیمت سمجھو

جھک کے جو سینکڑوں فتنوں کو جگا سکتی ہیں

وہ نگاہیں اگر اٹھیں تو قیامت سمجھو

نہیں ہوتے ہیں ریاکاری کے سجدے مجھ سے

میں اگر سر نہ جھکاؤں تو عبادت سمجھو

رفتہ رفتہ مری خودداری سے واقف ہو گے

ابھی کچھ دن مرے انداز محبت سمجھو

جلوہ دیکھو گے کہاں دل کے علاوہ اپنا

مرے ٹوٹے ہوئے آئینے کی قسمت سمجھو

کم نہیں دور اسیری میں سہارا یہ بھی

قید میں یاد نشیمن کو غنیمت سمجھو

خوب سمجھایا ہے یہ کاتب قسمت نے ہمیں

جو میسر ہو جہاں میں اسے قسمت سمجھو

ہم جفاؤں کو بھی انداز عنایت سمجھیں

اور تم شکر ستم کو بھی شکایت سمجھو

میری آنکھوں میں ابھی اشک بہت باقی ہیں

تم جو محفل میں چراغوں کی ضرورت سمجھو

اے صباؔ کیوں ہو در غیر پہ توہین طلب

اپنے ہی در کو ہمیشہ در دولت سمجھو کثرت جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو

جس کی صورت نظر آئے وہی صورت سمجھو

غم کو غم اور نہ مصیبت کو مصیبت سمجھو

جو در دوست سے مل جائے غنیمت سمجھو

جھک کے جو سینکڑوں فتنوں کو جگا سکتی ہیں

وہ نگاہیں اگر اٹھیں تو قیامت سمجھو

نہیں ہوتے ہیں ریاکاری کے سجدے مجھ سے

میں اگر سر نہ جھکاؤں تو عبادت سمجھو

رفتہ رفتہ مری خودداری سے واقف ہو گے

ابھی کچھ دن مرے انداز محبت سمجھو

جلوہ دیکھو گے کہاں دل کے علاوہ اپنا

مرے ٹوٹے ہوئے آئینے کی قسمت سمجھو

کم نہیں دور اسیری میں سہارا یہ بھی

قید میں یاد نشیمن کو غنیمت سمجھو

خوب سمجھایا ہے یہ کاتب قسمت نے ہمیں

جو میسر ہو جہاں میں اسے قسمت سمجھو

ہم جفاؤں کو بھی انداز عنایت سمجھیں

اور تم شکر ستم کو بھی شکایت سمجھو

میری آنکھوں میں ابھی اشک بہت باقی ہیں

تم جو محفل میں چراغوں کی ضرورت سمجھو

اے صباؔ کیوں ہو در غیر پہ توہین طلب

اپنے ہی در کو ہمیشہ در دولت سمجھو کثرت جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو

جس کی صورت نظر آئے وہی صورت سمجھو

غم کو غم اور نہ مصیبت کو مصیبت سمجھو

جو در دوست سے مل جائے غنیمت سمجھو

جھک کے جو سینکڑوں فتنوں کو جگا سکتی ہیں

وہ نگاہیں اگر اٹھیں تو قیامت سمجھو

نہیں ہوتے ہیں ریاکاری کے سجدے مجھ سے

میں اگر سر نہ جھکاؤں تو عبادت سمجھو

رفتہ رفتہ مری خودداری سے واقف ہو گے

ابھی کچھ دن مرے انداز محبت سمجھو

جلوہ دیکھو گے کہاں دل کے علاوہ اپنا

مرے ٹوٹے ہوئے آئینے کی قسمت سمجھو

کم نہیں دور اسیری میں سہارا یہ بھی

قید میں یاد نشیمن کو غنیمت سمجھو

خوب سمجھایا ہے یہ کاتب قسمت نے ہمیں

جو میسر ہو جہاں میں اسے قسمت سمجھو

ہم جفاؤں کو بھی انداز عنایت سمجھیں

اور تم شکر ستم کو بھی شکایت سمجھو

میری آنکھوں میں ابھی اشک بہت باقی ہیں

تم جو محفل میں چراغوں کی ضرورت سمجھو

اے صباؔ کیوں ہو در غیر پہ توہین طلب

اپنے ہی در کو ہمیشہ در دولت سمجھو کثرت جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو

جس کی صورت نظر آئے وہی صورت سمجھو

غم کو غم اور نہ مصیبت کو مصیبت سمجھو

جو در دوست سے مل جائے غنیمت سمجھو

جھک کے جو سینکڑوں فتنوں کو جگا سکتی ہیں

وہ نگاہیں اگر اٹھیں تو قیامت سمجھو

نہیں ہوتے ہیں ریاکاری کے سجدے مجھ سے

میں اگر سر نہ جھکاؤں تو عبادت سمجھو

رفتہ رفتہ مری خودداری سے واقف ہو گے

ابھی کچھ دن مرے انداز محبت سمجھو

جلوہ دیکھو گے کہاں دل کے علاوہ اپنا

مرے ٹوٹے ہوئے آئینے کی قسمت سمجھو

کم نہیں دور اسیری میں سہارا یہ بھی

قید میں یاد نشیمن کو غنیمت سمجھو

خوب سمجھایا ہے یہ کاتب قسمت نے ہمیں

جو میسر ہو جہاں میں اسے قسمت سمجھو

ہم جفاؤں کو بھی انداز عنایت سمجھیں

اور تم شکر ستم کو بھی شکایت سمجھو

میری آنکھوں میں ابھی اشک بہت باقی ہیں

تم جو محفل میں چراغوں کی ضرورت سمجھو

اے صباؔ کیوں ہو در غیر پہ توہین طلب

اپنے ہی در کو ہمیشہ در دولت سمجھو کثرت جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو

جس کی صورت نظر آئے وہی صورت سمجھو

غم کو غم اور نہ مصیبت کو مصیبت سمجھو

جو در دوست سے مل جائے غنیمت سمجھو

جھک کے جو سینکڑوں فتنوں کو جگا سکتی ہیں

وہ نگاہیں اگر اٹھیں تو قیامت سمجھو

نہیں ہوتے ہیں ریاکاری کے سجدے مجھ سے

میں اگر سر نہ جھکاؤں تو عبادت سمجھو

رفتہ رفتہ مری خودداری سے واقف ہو گے

ابھی کچھ دن مرے انداز محبت سمجھو

جلوہ دیکھو گے کہاں دل کے علاوہ اپنا

مرے ٹوٹے ہوئے آئینے کی قسمت سمجھو

کم نہیں دور اسیری میں سہارا یہ بھی

قید میں یاد نشیمن کو غنیمت سمجھو

خوب سمجھایا ہے یہ کاتب قسمت نے ہمیں

جو میسر ہو جہاں میں اسے قسمت سمجھو

ہم جفاؤں کو بھی انداز عنایت سمجھیں

اور تم شکر ستم کو بھی شکایت سمجھو

میری آنکھوں میں ابھی اشک بہت باقی ہیں

تم جو محفل میں چراغوں کی ضرورت سمجھو

اے صباؔ کیوں ہو در غیر پہ توہین طلب

اپنے ہی در کو ہمیشہ در دولت سمجھو کثرت جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو

جس کی صورت نظر آئے وہی صورت سمجھو

غم کو غم اور نہ مصیبت کو مصیبت سمجھو

جو در دوست سے مل جائے غنیمت سمجھو

جھک کے جو سینکڑوں فتنوں کو جگا سکتی ہیں

وہ نگاہیں اگر اٹھیں تو قیامت سمجھو

نہیں ہوتے ہیں ریاکاری کے سجدے مجھ سے

میں اگر سر نہ جھکاؤں تو عبادت سمجھو

رفتہ رفتہ مری خودداری سے واقف ہو گے

ابھی کچھ دن مرے انداز محبت سمجھو

جلوہ دیکھو گے کہاں دل کے علاوہ اپنا

مرے ٹوٹے ہوئے آئینے کی قسمت سمجھو

کم نہیں دور اسیری میں سہارا یہ بھی

قید میں یاد نشیمن کو غنیمت سمجھو

خوب سمجھایا ہے یہ کاتب قسمت نے ہمیں

جو میسر ہو جہاں میں اسے قسمت سمجھو

ہم جفاؤں کو بھی انداز عنایت سمجھیں

اور تم شکر ستم کو بھی شکایت سمجھو

میری آنکھوں میں ابھی اشک بہت باقی ہیں

تم جو محفل میں چراغوں کی ضرورت سمجھو

اے صباؔ کیوں ہو در غیر پہ توہین طلب

اپنے ہی در کو ہمیشہ در دولت سمجھو
صبا اکبر آبادی
صبا اکبر آبادی

صبا اکبرآبادی 14 اگست، 1908ء کو آگرہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا۔ صبا اکبر آبادی کی شاعری کا آغاز 1920ء سے ہوا۔ شاعری میں ان کے استاد خادم علی خاں اخضر اکبر آبادی تھے۔ 1927ء میں وہ شاہ اکبر داناپوری کے صاحبزادے شاہ محسن داناپوری کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور اسی وسیلے سے انھیں تصوف کی دنیا سے شناسائی ہوئی۔ 1928ء میں انھوں نے ایک ادبی ماہنامہ آزاد نکالا۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے رعنا اکبر آبادی کے رسالے مشورہ کی ادارت بھی سنبھالی۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے حیدرآباد (سندھ) اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی اور بہت جلد یہاں کی ادبی فضا کا ایک اہم حصہ بن گئے۔ انھوں نے مختلف النوع ملازمتیں بھی کیں اور تقریباً ایک سال محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے۔ صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراق گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغ بہار، خونناب، حرز جاں، ثبات اور دست دعا کے نام شامل ہیں اس کے علاوہ ان کے مرثیوں کے تین مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاس الم کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے عمر خیام، غالب، حافظ شیرازی اور امیر خسرو کے منتخب فارسی کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا جن میں سے عمر خیام اور غالب کے تراجم اشاعت پزیر ہو چکے ہیں۔ ان کی ملی شاعری کا مجموعہ زمزمۂ پاکستان قیام پاکستان سے پہلے شائع ہوا تھا۔ انھوں نے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا جو زندہ لاش کے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔ صبا اکبرآبادی 29 اکتوبر، 1991ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پاگئے۔ انہیں کراچی میں سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

المزيد من كتابات هذا المؤلف

استفد من نور اللغة والذكاء الاصطناعي۔

استفد من القواميس، المدققات الإملائية، ومحللات الأحرف، خطوة ثورية للطلاب، المعلمين، الباحثين، والأشخاص المرتبطين بمختلف المجالات والصناعات۔

لغات

سَهِّل العملية العلمية والبحثية من خلال القواميس الباكستانية والدولية المختلفة۔

استخدم

مدقق إملائي

حدد وصحح الأخطاء الإملائية في مختلف اللغات۔

استخدم

التعرّف الضوئي على الحروف

حوّل الصور إلى نص قابل للتعديل باستخدام تقنية التعرف الضوئي على الحروف المتقدمة۔

استخدم