منزل پہ پہنچنے کا مجھے شوق ہوا تیز
منزل
پہ
پہنچنے
کا
مجھے
شوق
ہوا
تیز
رستہ
ملا
دشوار
تو
میں
اور
چلا
تیز
ہاتھوں
کو
ڈبو
آئے
ہو
تم
کس
کے
لہو
میں
پہلے
تو
کبھی
اتنا
نہ
تھا
رنگ
حنا
تیز
مجھ
کو
یہ
ندامت
ہے
کہ
میں
سخت
گلو
تھا
تجھ
سے
یہ
شکایت
ہے
کہ
خنجر
نہ
کیا
تیز
چل
میں
تجھے
رفتار
کا
انداز
سکھا
دوں
ہمراہ
مرے
سست
قدم
مجھ
سے
جدا
تیز
افسردگئ
گل
پہ
بھریں
کس
نے
یہ
آہیں
چلتی
ہے
سر
صحن
چمن
آج
ہوا
تیز
اب
مجھ
کو
نظر
پھیر
کے
اک
جام
دے
ساقی
پھر
کون
سنبھالے
گا
اگر
نشہ
ہوا
تیز
انسان
کے
ہر
غم
پہ
صباؔ
چوٹ
لگی
ہے
شیشے
کے
چٹخنے
کی
بھی
تھی
کتنی
صدا
تیز