جو ہمارے سفر کا قصہ ہے

جو ہمارے سفر کا قصہ ہے

وہ تری رہ گزر کا قصہ ہے

صبح تک ختم ہو ہی جائے گا

زندگی رات بھر کا قصہ ہے

دل کی باتیں زباں پہ کیوں لاؤ

گھر میں رہنے دو گھر کا قصہ ہے

کوئی تلوار کیا بتائے گی

دوش کا اور سر کا قصہ ہے

ہوش آ جائے تو سناؤں گا

چشم دیوانہ گر کا قصہ ہے

چلتے رہنا تو کوئی بات نہ تھی

صرف سمت سفر کا قصہ ہے

جیتے جی ختم ہو نہیں سکتا

زندگی عمر بھر کا قصہ ہے

شام کو ہم سنائیں گے تم کو

شب غم کی سحر کا قصہ ہے

تیرے نقش قدم کی بات نہیں

صرف شمس و قمر کا قصہ ہے

دامن خشک لاؤ پھر سننا

یہ مری چشم تر کا قصہ ہے

چند تنکے نہ تھے نشیمن کے

باغ و شاخ و شجر کا قصہ ہے

حلق میں چبھ رہے ہیں کانٹے سے

لب پہ گل ہائے تر کا قصہ ہے

میری بربادیوں کا حال نہ پوچھ

ایک نیچی نظر کا قصہ ہے

اسی بیداد گر سے کہہ دے صباؔ

اسی بیداد گر کا قصہ ہے جو ہمارے سفر کا قصہ ہے

وہ تری رہ گزر کا قصہ ہے

صبح تک ختم ہو ہی جائے گا

زندگی رات بھر کا قصہ ہے

دل کی باتیں زباں پہ کیوں لاؤ

گھر میں رہنے دو گھر کا قصہ ہے

کوئی تلوار کیا بتائے گی

دوش کا اور سر کا قصہ ہے

ہوش آ جائے تو سناؤں گا

چشم دیوانہ گر کا قصہ ہے

چلتے رہنا تو کوئی بات نہ تھی

صرف سمت سفر کا قصہ ہے

جیتے جی ختم ہو نہیں سکتا

زندگی عمر بھر کا قصہ ہے

شام کو ہم سنائیں گے تم کو

شب غم کی سحر کا قصہ ہے

تیرے نقش قدم کی بات نہیں

صرف شمس و قمر کا قصہ ہے

دامن خشک لاؤ پھر سننا

یہ مری چشم تر کا قصہ ہے

چند تنکے نہ تھے نشیمن کے

باغ و شاخ و شجر کا قصہ ہے

حلق میں چبھ رہے ہیں کانٹے سے

لب پہ گل ہائے تر کا قصہ ہے

میری بربادیوں کا حال نہ پوچھ

ایک نیچی نظر کا قصہ ہے

اسی بیداد گر سے کہہ دے صباؔ

اسی بیداد گر کا قصہ ہے
صبا اکبر آبادی
صبا اکبر آبادی

صبا اکبرآبادی 14 اگست، 1908ء کو آگرہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا۔ صبا اکبر آبادی کی شاعری کا آغاز 1920ء سے ہوا۔ شاعری میں ان کے استاد خادم علی خاں اخضر اکبر آبادی تھے۔ 1927ء میں وہ شاہ اکبر داناپوری کے صاحبزادے شاہ محسن داناپوری کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور اسی وسیلے سے انھیں تصوف کی دنیا سے شناسائی ہوئی۔ 1928ء میں انھوں نے ایک ادبی ماہنامہ آزاد نکالا۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے رعنا اکبر آبادی کے رسالے مشورہ کی ادارت بھی سنبھالی۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے حیدرآباد (سندھ) اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی اور بہت جلد یہاں کی ادبی فضا کا ایک اہم حصہ بن گئے۔ انھوں نے مختلف النوع ملازمتیں بھی کیں اور تقریباً ایک سال محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے۔ صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراق گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغ بہار، خونناب، حرز جاں، ثبات اور دست دعا کے نام شامل ہیں اس کے علاوہ ان کے مرثیوں کے تین مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاس الم کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے عمر خیام، غالب، حافظ شیرازی اور امیر خسرو کے منتخب فارسی کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا جن میں سے عمر خیام اور غالب کے تراجم اشاعت پزیر ہو چکے ہیں۔ ان کی ملی شاعری کا مجموعہ زمزمۂ پاکستان قیام پاکستان سے پہلے شائع ہوا تھا۔ انھوں نے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا جو زندہ لاش کے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔ صبا اکبرآبادی 29 اکتوبر، 1991ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پاگئے۔ انہیں کراچی میں سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR