حقیقت اور ہی کچھ ہے مگر ہم کیا سمجھتے ہیں
حقیقت اور ہی کچھ ہے مگر ہم کیا سمجھتے ہیں
جو اپنا ہو نہیں سکتا اسے اپنا سمجھتے ہیں
یہ درس اولیں مجھ کو ملا میرے بزرگوں سے
بہت چھوٹے ہیں وہ اوروں کو جو چھوٹا سمجھتے ہیں
نہ جانے کیوں ہماری ان کی اک پل بھی نہیں بنتی
جو اپنا قبلۂ دل دولت دنیا سمجھتے ہیں
خدا و مصطفٰی سے ہٹ کے وہ ہیں سخت دھوکے میں
جو اپنی ذات کو تنقید سے بالا سمجھتے ہیں
برے اچھوں کو بھی اچھا نہیں گردانتے لیکن
جو اچھے ہیں برے لوگوں کو بھی اچھا سمجھتے ہیں
نہ پوچھو کچھ کہ کیا دے دیا ہے دینے والے نے
بڑا ہو لاکھ کوئی ہم کسی کو کیا سمجھتے ہیں
بظاہر خوش تھے جو کل تک ہماری گل فشانی پر
وہ اپنے بھی ہمیں اب راہ کا کانٹا سمجھتے ہیں
قیامت سر پہ جو ٹوٹے مصیبت دل پہ جو آئے
حقیقت میں اسے ہم مرضیٔ مولا سمجھتے ہیں
لگا دی تہمت بادہ کشی ان پر بھی واعظ نے
نصیرؔ ان کی نظر کو جو مے و مینا سمجھتے ہیں