ظلم ہم پر ہر آن ہوتے ہیں
ظلم ہم پر ہر آن ہوتے ہیں
رات دن امتحان ہوتے ہیں
آپ سے کیا کوئی توقع ہو
آپ کب مہربان ہوتے ہیں
حسن کی سادگی کا کیا کہنا
عشق پر سو گمان ہوتے ہیں
کوئی ان کو مٹا نہیں سکتا
غم کے ایسے نشان ہوتے ہیں
ظلم سہتے ہیں کچھ نہیں کہتے
اہل دل بے زبان ہوتے ہیں
دیدہ و دل کی آبرو آنسو
غم کے یہ ترجمان ہوتے ہیں
آپ کو بے وفا کہا کس نے
آپ کیوں بد گمان ہوتے ہیں
برق تنکے وہی جلاتی ہے
جو نشیمن کی جان ہوتے ہیں
اتنا آساں نہیں ہے عشق نصیرؔ
اس میں سو امتحان ہوتے ہیں