میکدے کا نظام تم سے ہے
میکدے
کا
نظام
تم
سے
ہے
شیشہ
تم
سے
ہے
جام
تم
سے
ہے
صبح
تم
سے
ہے
شام
تم
سے
ہے
ہر
طرح
کا
نظام
تم
سے
ہے
سب
کو
سوز
و
گداز
تم
نے
دیا
عشق
کا
فیض
عام
تم
سے
ہے
میں
زمانے
کے
رو
بہ
رو
چپ
ہوں
بے
تکلف
کلام
تم
سے
ہے
خال
مشکیں
بھی
زلف
پیچاں
بھی
دانہ
تم
سے
ہے
دام
تم
سے
ہے
مہر
انور
میں
ہے
تمہاری
ضیا
حسن
ماہ
تمام
تم
سے
ہے
تم
ہو
بنیاد
دونوں
عالم
کی
دو
جہاں
کا
قیام
تم
سے
ہے
ہیں
تمہارے
ہیں
تم
ہمارے
ہو
ہیں
کو
عشق
دوام
تم
سے
ہے
اب
کسی
کو
نصیرؔ
کیا
جانے
اب
تو
جو
کچھ
ہے
کام
تم
سے
ہے