جسے تیری زلفوں کے خم یاد آئے
جسے
تیری
زلفوں
کے
خم
یاد
آئے
اسے
پھر
نہ
دیر
و
حرم
یاد
آئے
وہیں
ماہ
و
انجم
کی
تابانیاں
تھیں
جہاں
تیرے
نقش
قدم
یاد
آئے
بڑھی
اور
شام
الم
کی
اداسی
جو
گیسو
ترے
دمبدم
یاد
آئے
بہر
حال
ان
سے
رہا
اک
تعلق
ستم
یاد
آئے
کرم
یاد
آئے
ہو
جس
کی
نظر
میں
وجود
ایک
منزل
اسے
کیسے
راہ
عدم
یاد
آئے
نصیرؔ
اپنی
روداد
جب
ہم
نے
دیکھی
گھنی
زلف
کے
پیچ
و
خم
یاد
آئے