مری زیست پر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
مری
زیست
پر
مسرت
کبھی
تھی
نہ
ہے
نہ
ہوگی
کوئی
بہتری
کی
صورت
کبھی
تھی
نہ
ہے
نہ
ہوگی
مجھے
حسن
نے
ستایا
مجھے
عشق
نے
مٹایا
کسی
اور
کی
یہ
حالت
کبھی
تھی
نہ
ہے
نہ
ہوگی
جو
ہے
گردشوں
نے
گھیرا
تو
نصیب
ہے
یہ
میرا
مجھے
آپ
سے
شکایت
کبھی
تھی
نہ
ہے
نہ
ہوگی
ترے
در
سے
بھی
نباہے
در
غیر
کو
بھی
چاہے
مرے
سر
کو
یہ
اجازت
کبھی
تھی
نہ
ہے
نہ
ہوگی
ترا
نام
تک
بھلا
دوں
تری
یاد
تک
مٹا
دوں
مجھے
اس
طرح
کی
جرأت
کبھی
تھی
نہ
ہے
نہ
ہوگی
میں
یہ
جانتے
ہوئے
بھی
تری
انجمن
میں
آیا
کہ
تجھے
مری
ضرورت
کبھی
تھی
نہ
ہے
نہ
ہوگی
ترا
حسن
ہے
یگانہ
ترے
ساتھ
ہے
زمانہ
مرے
ساتھ
میری
قسمت
کبھی
تھی
نہ
ہے
نہ
ہوگی
یہ
کرم
ہے
دوستوں
کا
جو
وہ
کہہ
رہے
ہیں
سب
سے
کہ
نصیرؔ
پر
عنایت
کبھی
تھی
نہ
ہے
نہ
ہوگی