جب خزاں آئے تو پتے نہ ثمر بچتا ہے
جب
خزاں
آئے
تو
پتے
نہ
ثمر
بچتا
ہے
خالی
جھولی
لئے
ویران
شجر
بچتا
ہے
نکتہ
چیں
شوق
سے
دن
رات
مرے
عیب
نکال
کیونکہ
جب
عیب
نکل
جائیں
ہنر
بچتا
ہے
سارے
ڈر
بس
اسی
ڈر
سے
ہیں
کہ
کھو
جائے
نہ
یار
یار
کھو
جائے
تو
پھر
کون
سا
ڈر
بچتا
ہے
روز
پتھراؤ
بہت
کرتے
ہیں
دنیا
والے
روز
مر
مر
کے
مرا
خواب
نگر
بچتا
ہے
غم
وہ
رستہ
ہے
کہ
شب
بھر
اسے
طے
کرنے
کے
باد
صبح
دم
دیکھیں
تو
اتنا
ہی
سفر
بچتا
ہے
بس
یہی
سوچ
کے
آیا
ہوں
تری
چوکھٹ
پر
در
بدر
ہونے
کے
بعد
اک
یہی
در
بچتا
ہے
اب
مرے
عیب
زدہ
شہر
کے
شر
سے
صاحب
شاذ
و
نادر
ہی
کوئی
اہل
ہنر
بچتا
ہے
عشق
وہ
علم
ریاضی
ہے
کہ
جس
میں
فارس
دو
سے
جب
ایک
نکالیں
تو
صفر
بچتا
ہے