جھجھک رہے تھے نظر سے نظر ملاتے ہوئے
جھجھک
رہے
تھے
نظر
سے
نظر
ملاتے
ہوئے
یہ
کیا
ہوا
تھا
تمہیں
فیصلہ
سناتے
ہوئے
وہ
دن
ہے
آج
کا
دن
گھر
کا
منہ
نہیں
دیکھا
کسی
نے
راستہ
پوچھا
تھا
مسکراتے
ہوئے
خدا
تمہارا
نگہبان
قافلے
والو
میں
خود
بھٹک
گیا
ہوں
راستہ
بتاتے
ہوئے
وہ
روشنی
کا
مسافر
جسے
ہواءوں
نے
بجھا
دیا
تھا
دئیے
سے
دیا
جلاتے
ہوئے