صبح ہونے کا تو مطلب ہے کہ اب رات گئی
صبح
ہونے
کا
تو
مطلب
ہے
کہ
اب
رات
گئی
یہ
تو
وہ
بات
ہوئی
رات
گئی
بات
گئی
آنکھ
ملتے
ہوئے
کہتی
ہے
اندھیرے
سے
سحر
بس
یہیں
تک
تری
اوقات
تھی
اوقات
گئی
دور
سے
ہاتھ
ہلاتے
جو
گزر
جاتا
تھا
پاس
آیا
تو
بہت
دور
تلک
بات
گئی
شاخ
امید
ہری
ہونے
پہ
راضی
ہی
نہ
تھی
آخر
کار
منانے
اسے
برسات
گئی
خود
کلامی
ہی
غنیمت
ہے
کہ
یہ
قصہ
غم
کس
سے
کہیے
کہ
یہ
دنیا
بھی
ترے
ساتھ
گئی
میں
جو
خاطر
میں
نہ
لایا
تو
پلٹ
کر
مجھ
سے
ٹھوکریں
کھاتی
ہوئی
گردش
حالات
گئی
چلیے
ملتے
ہیں
کسی
وقت
خیالوں
میں
صبا
بالمشافہ
وہ
جو
ہوتی
تھی
ملاقات
گئی