جو بچ گیا ہے اسے آمرانہ لوٹے گا
جو
بچ
گیا
ہے
اسے
آمرانہ
لوٹے
گا
اب
ایک
دوسرا
ڈاکو
خزانہ
لوٹے
گا
دکھا
کے
فاقہ
کشوں
کو
نئی
امیدکے
خواب
لٹے
پٹوں
کو
بصد
شاطرانہ
لوٹے
گا
ابھی
تو
بھوک
پہ
اس
نے
نقب
لگائی
ہے
ابھی
تو
روٹی
کا
یہ
کارخانہ
لوٹے
گا
ہنر
کھلیں
گے
ابھی
ہاتھ
کی
صفائی
کے
نظر
کے
سامنے
یہ
محرمانہ
لوٹے
گا
اندھیری
رات
میں
چھینے
گا
ٹمٹماتے
چراغ
جھلستی
دھوپ
میں
یہ
شامیانہ
لوٹے
گگا
یہ
ایک
دو
نہیں
پورا
گروہ
ہے
صاحب
حضور
سارے
کا
سارا
گھرانہ
لوٹے
گا
متاع
علم
و
ہنر
جہل
سے
نہیں
لٹتی
جو
لوٹے
گا
وہ
اسے
فاضلانہ
لوٹے
گا
بتا
رہا
ہوں
ابھی
سے،گرہ
میں
باندھ
کے
رکھ
سخن
کا
میلہ
کوئی
غائبانہ
لوٹے
گا
ملے
گی
داد
سب
ہی
کو
بقدر
ظرف
صبا
مشاعرہ
تو
مگر
بس
یگانہ
لوٹے
گا