کہانیوں میں بھی تجھ سا کوئی عدو نہ ملا
کہانیوں
میں
بھی
تجھ
سا
کوئی
عدو
نہ
ملا
سب
ہی
ملے
مرے
دشمن
سے
ایک
تو
نہ
ملا
جو
چیزیں
مل
کے
نہ
دیں
ان
میں
ایک
تو
میں
ہوں
اور
ایک
پا
وٗں
کا
موزہ
تھا
جو
کبھو
نہ
ملا
خموشیاں
تھیں
کہ
تا
دیر
ہم
کلام
رہیں
ملے
بچھڑ
کے
تو
موضوع
گفت
گو
نہ
ملا
پرائے
غم
سے
نکھرتا
گیا
ترا
چہرہ
جو
تجھ
سا
روکش
غم
ہو
وہ
خوب
رو
نہ
ملا
ملے
جو
ایک
زمانے
پہ
یار
خوش
گفتار
شباہتیں
تو
ملیں
کوئی
ہو
بہو
نہ
ملا
تھی
اس
کی
کاری
گری
دیکھنے
کی
چیز
صبا
کہ
ایک
چاک
بھی
دامن
کا
بے
رفو
نہ
ملا