چہرہ ہی جب کسی کا ،مقابل نہیں رہا
چہرہ ہی جب کسی کا ،مقابل نہیں رہا
آئینہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا
دانائی آگہی سے بھی آگے کی چیز ہے
ہشیار وہ نہیں ہے جو غافل نہیں رہا
شامل ہے زندگی میں مری خون کی طرح
دکھ سکھ میں جو کبھی مرے شامل نہیں رہا
تم بھی تو دل ربائی کی حد سے نکل گئے
پھر کیا ہوا جو دل مرا وہ دل نہیں رہا