یہ جو ساقی مجھے دے جاتا ہے پیمانے دو
یہ جو ساقی مجھے دے جاتا ہے پیمانے دو
اس کے پیچھے جو کہانی ہے اسے جانے دو
کم تھا سامان گرفتاری ارباب جنوں
ایک زنجیر سے باندھے گئے دیوانے دو
اس رفاقت کو محبت کا بھرم ہی کہیے
ہاتھ میں ہاتھ لیے بیٹھے ہیں بیگانے دو
ہائے تنہائی کا ٓآسیب کہ اک دوسرے سے
جان پہچان پہ مجبور ہیں انجانے دو
ایسے مانے گا کہاں دل ہے یہ ٹوٹا ہوا دل
اس کی قسمت میں بکھرنا ہے بکھر جانے دو
مل بھی جاتے ہیں تو بیگانے نظر آتے ہیں
اپنے احوال میں گم رہتے ہیں مستانے دو
منصفی سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے
جرم ہے ایک پہ انصاف کے پیمانے دو