دیا ہے زہر بھی امرت ملا ملا کے مجھے
دیا ہے زہر بھی امرت ملا ملا کے مجھے
گلہ کیا بھی تو اس نے گلے لگا کے مجھے
جو اپنے خواب سے باہر نہ لا سکی مجھ کو
وہ آنکھ سو گئی آخر جگا جگا کے مجھے
جہاں سے لایا تھا میں گھیر گھار کر خود کو
وہیں پہ لے گئے رستے گھما پھرا کے مجھے
تری نگاہ ستم آشنا سے بیگانہ
بس ایک آدھ ہی ہوں گے ملا جلا کے مجھے
جو مڑ کے دیکھا تو منزل نہ راستہ کوئی
خیال آیا پلٹنے کا دور جا کے مجھے
میں اپنی ذات کی دہلیز تک چلا آیا
چلا گیا وہ نہ جانے کہاں بلا کے مجھے