لوگ بے پر کی اڑا دیتے ہیں جانے کیا کیا
لوگ
بے
پر
کی
اڑا
دیتے
ہیں
جانے
کیا
کیا
تم
بگڑتے
ہو
تو
بنتے
ہیں
فسانے
کیا
کیا
بات
ساون
سے
چلی
دامن
گل
تک
پہنچی
بھید
کھلتے
گئے
موسم
کے
بہانے
کیا
کیا
تم
مرے
شہر
میں
آتے
ہو
تو
آجاتے
ہیں
مجھ
سے
ملنے
کے
لیے
یار
پرانے
کیا
کیا
چلتے
پھرتے
جو
کبھی
اس
کا
خیال
آجائے
ایک
لمحے
میں
گزرتے
ہیں
زمانے
کیا
کیا
کبھی
آنکھوں
میں
سکونت
ہے
کبھی
ہونٹوں
پر
تم
بھی
ہر
روز
بدلتے
ہو
ٹھکانے
کیا
کیا