رہ نہ جائے کسی رنگت کی کمی ہولی میں
رہ
نہ
جائے
کسی
رنگت
کی
کمی
ہولی
میں
میری
رنگت
بھی
ملا
لیجئے
رنگولی
میں
جب
بھی
کرتا
ہے
محبت
سے
شکایت
کوئی
شہد
کا
ذائقہ
گھل
جاتا
ہے
رنگولی
میں
تیرے
ماتھے
سے
پھسلتی
ہوئی
رنگوں
کی
لکیر
بیل
بوٹے
سے
بناتی
ہے
تری
جھولی
میں
تیرے
لہجے
میں
ہے
برسات
کی
رم
جھم
سی
پکار
کوکتی
ہے
کوئی
کوئل
سی
تری
بولی
میں
مور
کے
سبز
پروں
میں
جو
چھپے
رہتے
ہیں
وہی
زر
تاب
سے
بوٹے
ہیں
تری
چولی
میں
سچ
بتا
تو
نے
بتایا
ہے
نہ
سب
کچھ
اس
کو
چھیڑ
سی
دیکھی
ہے
میں
نے
تری
ہم
جولی
میں
جیسے
مہتاب
ستاروں
سے
بھری
ٹولی
میں
جاگ
اٹھتی
ہیں
مرے
ساتھ
کتابیں
میری
دن
نکل
آتا
ہے
چپکے
سے
مری
کھولی
میں