خط شکسستہ میں یہ اہتمام کس کا تھا
خط شکسستہ میں یہ اہتمام کس کا تھا
جو لکھ کے کاٹ دیا تھا وہ نام کس کا تھا
یہ کس کے نام کی تختی اکھاڑ پھینکی تھی
قیام گاہ تھی کس کی قیام کس کا تھا
کس اہتمام سے لوٹی گئی مری بستی
سوال یہ ہے وہاں انتظام کس کا تھا
اسی پہ بحث چھڑی اور نا تمام رہی
کہ بادشاہ تھا کس کا غلام کس کا تھا
جسے نہ سمت کی پروا تھی اور نہ منزل کی
وہ اسپ مثل صبا بے لگام کس کا تھا
مگر یہ بحث نہیں ہے کہ کون تھا قاتل
مگر یہ بات کہ قائم مقام کس کا تھا
جو بند ہیں مری آنکھیں تو منہ نہ کھلوائو
کسے خبر نہیں ہر نیک کام کس کا تھا
لحاظ حفظ مراتب ہے ورنہ دنیا میں
تھا کون محترم اور احترام کس کا تھا
یہ جانے والوں سے کس نے نظر چرائی تھی
یہ آنے والوں کو فرشی سلام کس کا تھا
تمہارے منہ سے تو بالکل ہی اجنبی سا لگا
تمہیں قسم ہے بتا دو کلام کس کا تھا