آ کے جانے کا بھی جی چاہے تو جائے نہ بنے
آ
کے
جانے
کا
بھی
جی
چاہے
تو
جائے
نہ
بنے
گھر
جسے
کہتے
ہیں
وہ
ہے
جو
سرائے
نہ
بنے
بنتے
بنتے
ہی
کوئی
راستہ
بن
جاتا
ہے
اور
وہاں
بھی
کہ
جہاں
پائوں
جمائے
نہ
بنے
مسکرانے
میں
بھی
ہوتی
ہے
قباحت
یعنی
مفت
کی
روزی
ہے
اور
وہ
بھی
کمائے
نہ
بنے
مرزا
نوشہ
کو
خبر
ہو
کہ
نظیری
کی
غزل
دسترس
میں
ہے
مگر
ہاتھ
لگائے
نہ
بنے
پاءوں
پڑتا
ہوں
تو
وہ
جان
چھڑا
لیتے
ہیں
ہاتھ
آجائیں
تو
پھر
جان
چھڑائے
نہ
بنے
دل
کا
احوال
سنائوں
تو
جگر
کٹتا
ہے
مختصر
یہ
ہے
کہ
تفصیل
میں
جائے
نہ
بنے
غم
وہ
نوحہ
ہے
کہ
اک
ٹوٹے
ہوئے
دل
کے
سوا
ہمہ
تن
گوش
ہو
تم
بھی
تو
سنائے
نہ
بنے
ایسی
ان
بن
ہے
کہ
اب
جاں
پہ
بن
آئی
ہے
ایسی
بگڑی
ہے
کہ
اب
بات
بنائے
نہ
بنے
ہائے
بے
چارگیء
دست
مسیحا
کے
مریض
دسترس
میں
ہے
مگر
ہاتھ
لگائے
نہ
بنے
دل
کو
چھونے
کی
سہولت
ہے
تو
کیا
غم
کہ
ہمیں
تیرے
ہاتھوں
کو
اگر
ہاتھ
لگائے
نہ
بنے
جان
لیوا
ہے
سر
بزم
مروت
اس
کی
ہم
سے
اٹھے
نہ
بنے
اس
سے
اس
سے
اٹھائے
نہ
بنے