کوئی زمانہ ہو موضوع گفتگو رہے گا
کوئی
زمانہ
ہو
موضوع
گفتگو
رہے
گا
وہی
رہے
گا
جو
مائل
بہ
جستجو
رہے
گا
کسے
خبر
تھی
کہ
ایسا
بھی
وقت
آئے
گا
کوئی
کسی
کے
مقابل
نہ
رو
برو
رہے
گا
ڈرے
ڈرے
سے
رہیں
گے
سب
ایک
دوسرے
سے
کوئی
کسی
کا
مسیحا
نہ
چارہ
جو
رہے
گا
سب
اپنی
اپنی
مشینوں
میں
جلوہ
گر
رہیں
گے
نہ
میں
رہوں
گا
ترے
روبرو
نہ
تو
رہے
گا
پکارے
جائیں
گے
گنتی
سے
سارے
شاہ
و
گدا
نمود
و
نام
کا
موسم
بھی
بے
نمو
رہے
گا
کتاب
جبر
میں
تاریخ
کربلا
کا
ورق
لہو
لہان
رہے
گا
لہو
لہو
رہے
گا
بلائے
حبس
کے
موسم
میں
سانس
لینے
کا
بس
اک
وظیفہء
جل
جلال
تو
رہے
گا
رہیں
گے
میکدے
آباد
اس
طرح
سے
کہ
اب
بس
ایک
جام
ہی
رندوں
کا
ہم
سبو
رہے
گا
بھرے
گا
زخم
مگر
دیر
سے
بھرے
گا
صبا
ابھی
یہ
پیرہن
درد
بے
رفو
رہے
گا