وہ حبس ہے کہ ہر اک سانس تازیانہ لگے
وہ
حبس
ہے
کہ
ہر
اک
سانس
تازیانہ
لگے
کھلی
ہیں
کھڑکیاں
دروازے
اور
ہوا
نہ
لگے
ابھی
تو
پہلی
ملاقات
ہی
نہیں
ہوئی
ختم
ترے
فراق
کو
شائدابھی
زمانہ
لگے
نیالباس
بھی
پہنو
تو
اس
طرح
پہنو
جسےنصیب
نہیں
ہے
اسے
برا
نہ
لگے
اداس
لوگوں
میں
بیٹھے
کوئی
تو
دھیان
رکھے
لگے
ان
ہی
کی
طرح
ان
سے
ماورا
نہ
لگے
یہ
احتیاط
میں
کیا
کیا
سخن
کشی
نہ
ہوئی
اسے
برا
نہ
لگے
اور
اسے
برا
نہ
لگے
کسی
سے
حال
بھی
پوچھو
تو
اس
طرح
کہ
اسے
مرض
مرض
نہ
لگے
اور
دوا
دوا
نہ
لگے
بہار
میں
تو
سب
ہی
سبز
پوش
لگتے
ہیں
وہ
کیا
شجر
جو
خزاں
میں
ہرا
بھرا
نہ
لگے
عجیب
طور
سے
ہم
تم
نے
زندگانی
کی
الگ
الگ
نظر
آئے
جدا
جدا
نہ
لگے
خدا
دراز
کرے
عمر
حلقہء
احباب
کہ
حاضری
بھی
جہاں
اپنی
غائبانہ
لگے
جو
دے
رہے
ہیں
اسے
بے
وفائی
کا
طعنہ
وہ
ان
سے
ہاتھ
ملا
لے
تو
بے
وفا
نہ
لگے