کھینچ کر ہاتھ محبت سے سبھی نے رکھا
کھینچ
کر
ہاتھ
محبت
سے
سبھی
نے
رکھا
دور
کیوں
جاءو
کبھی
پاس
تم
ہی
نے
رکھا
اپنی
منزل
کی
خبر
قافلے
والوں
کو
نہ
تھی
سیدھے
رستے
پہ
مجھے
میری
کجی
نے
رکھا
دشت
امکاں
میں
بھٹکنے
سے
نہ
گھبرایا
جنوں
دوسرا
پائوں
بھی
شوریدہ
سری
نے
رکھا
آگہی
چاٹ
گئی
روح
کو
دیمک
کی
طرح
چین
سے
رکھا
تو
بس
بے
خبری
نے
رکھا
ضبط
گریہ
نے
رکھی
لاج
شکستہ
دل
کی
چاک
داماں
کا
بھرم
بخیہ
گری
نے
رکھا
مندمل
ہوتے
ہوئے
زخم
ہرے
ہونے
لگے
مجھ
کو
بیمار
تری
چارہ
گری
نے
رکھا
ہاتھ
کھینچا
تھا
ابھی
میں
نے
محبت
سے
صبا
میرے
شانوں
مگر
ہاتھ
کسی
نے
رکھا