اس نے پیمان وفا جتنے تھے سارے باندھے
اس
نے
پیمان
وفا
جتنے
تھے
سارے
باندھے
میرے
دامن
سے
دوپٹے
کے
کنارے
باندھے
اپنی
انگشت
حنائی
پہ
نچایا
اس
نے
ایک
کھونٹے
سے
مری
سوچ
کے
دھارے
باندھے
منتشر
کر
کے
مجھے
خود
کو
سمیٹا
اس
نے
ایک
لٹ
چھوڑ
کے
سب
بال
سنوارے
باندھے
ہاتھ
دو
ہاتھ
ہی
باقی
تھی
مسافت
اس
سے
لغزش
پا
نے
مگر
ہاتھ
ہمارے
باندھے
اس
کا
دل
رکھنے
کی
خاطر
جو
کیا
تھا
اک
دن
دل
نبھاتا
رہا
وہ
عہد
بھی
مارے
باندھے
دونوں
ہاتھوں
سے
لٹایا
ہے
خزانہ
دل
کا
مفت
بیچا
کبھی
سودا
نہ
ادھارے
باندھے
جگمگاتی
ہی
رہی
حسن
کی
تابش
سے
غزل
چاند
ٹانکے
کبھی
مصرعوں
میں
ستارے
باندھے