سودا ہو سر میں اور کوئی منزل بھی سر نہ ہو
سودا
ہو
سر
میں
اور
کوئی
منزل
بھی
سر
نہ
ہو
اور
اس
طرح
سے
ہو
کہ
کسی
کو
خبر
نہ
ہو
بازار
سے
گزرتے
ہوئے
سوچتا
ہوں
میں
جو
راہ
گھر
کو
جاتی
ہے
وہ
مختصر
نہ
ہو
رستوں
کی
اونچ
نیچ
تو
سمجھا
کے
جا
مجھے
ممکن
ہے
اگلے
موڑ
پہ
تو
ہم
سفر
نہ
ہو
مجھ
کو
یہ
بے
گھری
کا
نہ
طعنہ
دیا
کریں
بے
گھر
ہے
وہ
کہ
جس
کا
کسی
دل
میں
گھر
نہ
ہو
چل
پڑیئے
راہ
شوق
پہ
بے
سمت
و
بے
مقام
زاد
سفر
کا
کیا
ہے
اگر
ہو
اگر
نہ
ہو
اس
پر
جمی
ہوئی
ہیں
نگاہیں
کہ
اس
کا
حسن
جتنا
بھی
آشکار
ہے
صرف
نظر
نہ
ہو
کیا
بے
گھری
کا
دکھ
ہے
کبھی
ان
سے
پوچھیے
جن
کی
زمین
اپنی
ہو
اور
اپنا
گھر
نہ
ہو