اس کے آنے کی خبر کو عام کر کے رکھ دیا
اس
کے
آنے
کی
خبر
کو
عام
کر
کے
رکھ
دیا
صبح
سے
ہی
اہتمام
شام
کر
کے
رکھ
دیا
سوندھی
مٹی
کے
کٹورے
میں
رکھے
تازہ
گلاب
اور
پیالہ
ہم
سبو
کے
نام
کر
کے
رکھ
دیا
کچھ
نہیں
اس
سے
زیادہ
کر
سکے
دنیا
میں
ہم
دل
سپرد
گردش
ایام
کر
کے
رکھ
دیا
کیا
ڈھنڈورا
پیٹتے
یہ
کر
دیا
وہ
کردیا
بس
میاں
جو
بن
پڑا
وہ
کام
کر
کے
رکھ
دیا
دادد
تو
دینے
پڑے
گی
اس
نگاہ
خاص
کی
اک
نظرمیں
جس
نے
ہم
کو
عام
کر
کے
رکھ
دیا
نقد
جاں
سے
ہم
نے
رسوائی
خریدی
عشق
میں
اور
تم
نے
مفت
میں
بدنام
کر
کے
رکھ
دیا
اڑ
رہا
ہے
برق
رفتاری
سے
نسیاں
کا
غبار
شہرتوں
کی
دوڑ
نے
گم
نام
کر
کے
رکھ
دیا
وہ
جو
بکنے
کے
لیے
لایا
گیا
بازار
میں
اس
نے
تو
بازار
ہی
نیلام
کر
کے
رکھ
دیا