گھر کی جب یاد صدا دے تو پلٹ کر آ جائیں
گھر
کی
جب
یاد
صدا
دے
تو
پلٹ
کر
آ
جائیں
کاش
ہم
اپنی
ہی
خواہش
کو
میسر
آ
جائیں
ہے
کرامت
مرے
دل
کی
ترے
ناوک
میں
نہیں
وار
ہو
ایک
مگر
زخم
بہتر
آ
جائیں
گفتگو
آج
تو
دو
ٹوک
کرے
گا
سورج
ظل
سبحانی
شبستان
سے
باہر
آ
جائیں
شب
کو
یلغار
تفکر
سے
جو
بچ
نکلوں
میں
صبح
دم
تازہ
خیالات
کے
لشکر
آ
جائیں
اتنی
سفاک
سماعت
بھی
غضب
ہے
کہ
جہاں
بات
پوری
بھی
نہ
ہو
ہاتھوں
میں
پتھر
آ
جائیں