لمحہ لمحہ مرا ہر اک سے سوا جاگتا ہے
لمحہ
لمحہ
مرا
ہر
اک
سے
سوا
جاگتا
ہے
میں
الگ
جاگتا
ہوں
درد
جدا
جاگتا
ہے
بخت
بھی
سوتے
ہیں
اور
گھر
کے
مکیں
بھی
لیکن
سرحد
شب
پہ
کہیں
ایک
دیا
جاگتا
ہے
خواب
ہو
جانے
سے
پہلے
کوئی
حرف
خوش
کام
اسی
امید
پہ
یہ
ذہن
رسا
جاگتا
ہے
ہم
پہ
ہی
خاص
ہیں
کچھ
اس
کی
عنایات
سو
اب
فتنہ
اس
شہر
میں
ہر
روز
نیا
جاگتا
ہے
اے
مرے
درد
بتا
حد
سے
گزرنا
کب
ہے
تو
جو
یوں
جاگتا
رہتا
ہے
تو
کیا
جاگتا
ہے