کار خلوص یار کا مجھ کو یقین آ گیا
کار
خلوص
یار
کا
مجھ
کو
یقین
آ
گیا
اتنا
شدید
وار
تھا
مجھ
کو
یقین
آ
گیا
بس
یوں
ہی
کچھ
گماں
سا
تھا
کوئی
پس
سخن
بھی
ہے
درد
جو
لب
کشا
ہوا
مجھ
کو
یقین
آ
گیا
پھر
وہ
ہوا
کا
قہقہہ
کان
میں
گونجنے
لگا
اور
بھی
اک
دیا
بجھا
مجھ
کو
یقین
آ
گیا
دائرہ
وار
تھا
سفر
عشق
جنوں
صفات
کا
ہجر
و
وصال
کچھ
نہ
تھا
مجھ
کو
یقین
آ
گیا
اب
مرا
درد
بجھ
گیا
اب
مرا
زخم
بھر
چلا
پھر
وہی
دوست
آئے
گا
مجھ
کو
یقین
آ
گیا