تار شبنم کی طرح صورت خس ٹوٹتی ہے
تار
شبنم
کی
طرح
صورت
خس
ٹوٹتی
ہے
آس
بندھنے
نہیں
پاتی
ہے
کہ
بس
ٹوٹتی
ہے
آرزوؤں
کا
ہجوم
اور
یہ
ڈھلتی
ہوئی
عمر
سانس
اکھڑتی
ہے
نہ
زنجیر
ہوس
ٹوٹتی
ہے
گرد
اتنی
کہ
سجھائی
نہیں
دیتا
کچھ
بھی
شور
اتنا
ہے
کہ
آواز
جرس
ٹوٹتی
ہے
منہدم
ہوتا
چلا
جاتا
ہے
دل
سال
بہ
سال
ایسا
لگتا
ہے
گرہ
اب
کے
برس
ٹوٹتی
ہے
بوئے
گل
آئے
نہ
آئے
مگر
عشاق
کے
بیچ
اتنی
وحشت
ہے
کہ
دیوار
قفس
ٹوٹتی
ہے
ذکر
اسمائے
الٰہی
کا
ہے
فیضان
کہ
اب
دم
الجھتا
ہے
نہ
تسبیح
نفس
ٹوٹتی
ہے