کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے

کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے

روز اک تازہ خبر خلق خدا چاہتی ہے

موج خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری

اور کیا کوچۂ قاتل کی ہوا چاہتی ہے

شہر بے مہر میں لب بستہ غلاموں کی قطار

نئے آئین اسیری کی بنا چاہتی ہے

کوئی بولے کے نہ بولے قدم اٹھیں نہ اٹھیں

وہ جو اک دل میں ہے دیوار اٹھا چاہتی ہے

ہم بھی لبیک کہیں اور فسانہ بن جائیں

کوئی آواز سر کوہ ندا چاہتی ہے

یہی لو تھی کہ الجھتی رہی ہر رات کے ساتھ

اب کے خود اپنی ہواؤں میں بجھا چاہتی ہے

عہد آسودگی جاں میں بھی تھا جاں سے عزیز

وہ قلم بھی مرے دشمن کی انا چاہتی ہے

بہر پامالی گل آئی ہے اور موج خزاں

گفتگو میں روش باد صبا چاہتی ہے

خاک کو ہمسر مہتاب کیا رات کی رات

خلق اب بھی وہی نقش کف پا چاہتی ہے
افتخار عارف
افتخار عارف

افتخار عارف کی اصل تاریخ پیدائش 21 مارچ 1944ء ہے جبکہ کاغذات میں 1943ء درج ہے سو اسی نسبت سے آپ کے بارے لکھا جاتا ہے کہ آپ 21 مارچ، 1943ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔ اے کیا۔ اپنی علمی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں بحیثیت نیوز کاسٹر کیا۔ پھر پی ٹی وی سے منسلک ہو گئے۔ اس دور میں ان کا پروگرام کسوٹی بہت زیادہ مقبول ہوا۔ بی سی سی آئی بینک کے تعاون سے چلنے والے ادارے "اردو مرکز" کو جوائن کرنے کے بعد آپ انگلینڈ تشریف لے گئے۔ انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین بنے۔ اس کے بعد اکادمی ادبیات کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے۔ جبکہ نومبر 2008ء سے مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے کے بعد آج کل اسلامی جمہوریہ ایران کے دار الحکومت تہران میں ایکو تنظیم کے ثقافتی شعبے کو سبنھالے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران میں ہونی والی ادبی اور علمی محفلوں کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں افتخارعارف صاحب کی شرکت تقریبا ایک لازمی امر بن گئی ہے۔ افتخار عارف کی شاعری ایک ایسے شخص کی شاعری ہے جو سوچنا، محسوس کرنا اور بولنا جانتا ہے جب کہ اس کے ہمعصروں میں بیشتر کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ سوچ نہیں سکتے یا وہ محسوس نہیں کر سکتے اورسوچ اور احساس سے کام لے سکتے ہیں تو بولنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان کی ان خصوصیات کی بنا پر جب میں ان کے کلام کو ہم دیکھتے ہیں تو یہ احساس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ افتخار عارف کی آواز جدید اردو شاعری کی ایک بہت زندہ اور توانا آواز ہے۔ ایک ایسی آواز جو ہمارے دل و دماغ دونوں کو بیک وقت اپنی طرف کھینچتی ہے اور ہمیں ایک ایسی آسودگی بخشتی ہے جو عارف کے سوا شاید ہی کسی ایک آدھ شاعر میں مل سکے۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR