انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہوا

انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہوا

یوسف سے تیرے حسن کا پلہ گراں ہوا

روئے زمیں پہ ایسا میں بسمل تپاں ہوا

اڑ کر مرا لہو شفق آسماں ہوا

اس برق وش کا عشق نہانی عیاں ہوا

ابر سیاہ آہوں کا میرے دھواں ہوا

پیری میں مجھ کو عشق حسین جواں ہوا

بار دگر کبادے میں زور کماں ہوا

اہل زمیں سے صاف کہاں آسماں ہوا

کس روز برج ماہ میں فرش کتاں ہوا

معدوم داغ عشق کا دل سے نشاں ہوا

افسوس بے چراغ ہمارا مکاں ہوا

دو ٹکڑے ایک وار میں خود حباب ہے

گرداب موج تیغ کو سنگ فساں ہوا

دیکھا جو میں نے اس کو سمندر کی آنکھ سے

گل زار آگ ہو گئی سنبل دھواں ہوا

ملتا نہیں دماغ ہی گیسوئے یار کا

کچھ ان دنوں میں مشک کا سوداگراں ہوا

خوش چشموں کے فراق میں کھائے یہ پیچ و تاب

شاخ غزال اپنا ہر اک استخواں ہوا

سختیٔ راہ عشق سے واقف ہوئے نہ پاؤں

جوش جنوں مرے لیے تخت رواں ہوا

انبوہ عاشقاں سے ہوا حسن کو غرور

کثرت سے مشتری کی یہ سوداگراں ہوا

پیوند خاک ہو گئے اک بت کی راہ میں

پتھر ہماری قبر کا سنگ نشاں ہوا

پھینکا گیا نہ پیر فلک نعل کی طرح

کوئی نہ طفل اشک ہمارا جواں ہوا

تو دیکھنے گیا لب دریا جو چاندنی

استادہ تجھ کو دیکھ کے آب رواں ہوا

انساں کو چاہئے کہ نہ ہو ناگوار طبع

سمجھے سبک اسے جو کسی پر گراں ہوا

اس گل سے عرض حال کی حسرت ہی رہ گئی

کانٹے پڑے زباں میں جو میل بیاں ہوا

اللہ کے کرم سے بتوں کو کیا مطیع

زیر نگیں قلمرو ہندوستاں ہوا

انصاف میں نے عالم اسباب میں کیا

بنوائی چاندنی جو میسر کتاں ہوا

گردش نے اس کی سرمہ کئے اپنے استخواں

چکی ہمارے پیسنے کو آسماں ہوا

قاتل کی تیغ سے رہ ملک عدم ملی

آہن ہمارے واسطے سنگ نشاں ہوا

فکر بلند نے مری ایسا کیا بلند

آتشؔ زمین شعر سے پست آسماں ہوا
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR