بلبل گلوں سے دیکھ کے تجھ کو بگڑ گیا

بلبل گلوں سے دیکھ کے تجھ کو بگڑ گیا قمری کا طوق سرو کی گردن میں پڑ گیا چیں بر جبیں نہ اے بت چین رہ غرور سے تصویر کا ہے عیب جو چہرہ بگڑ گیا آئی تو ہے پسند اسے چال یار کی سن لیجو پاؤں کبک دری کا اکھڑ گیا پیچھے ہٹا نہ کوچۂ قاتل سے اپنا پاؤں سر سے تڑپ کے چار قدم آگے دھڑ گیا کھینچی جو میری طرح سے قمری نے آہ سرد جاڑے کے مارے سرو چمن میں اکڑ گیا شیریں کے شیفتہ ہوئے پرویز و کوہ کن شاعر ہوں میں یہ کہتا ہوں مضمون لڑ گیا اللہ رے شوق اپنی جبیں کو خبر نہیں اس بت کے آستانہ کا پتھر رگڑ گیا درماں سے اور درد ہمارا ہوا دو چند مرہم سے داغ سینہ میں ناسور پڑ گیا گلدستہ بن کے رونق بزم شہاں ہوا کوڑا جو اس فقیر کے تکیے سے جھڑ گیا نکلا نہ جسم سے دل نالاں شریک روح منزل میں رنگ ناقہ سے اپنے بچھڑ گیا پہنچا مجاز سے جو حقیقت کی کنہ کو یہ جان لے کہ راستے میں پھیر پڑ گیا فرقت کی شب میں زیست نے اپنی وفا نہ کی قبل سحر چراغ ہمارا نہ بڑھ گیا پاتا ہوں شوق وصل میں احباب کی کمی حسن و جمال یار میں کچھ فرق پڑ گیا لاشوں کو عاشقوں کے نہ اٹھوا گلی سے یار بسنے کا پھر یہ گاؤں نہیں جب اجڑ گیا دیکھا تجھے جو خون شہیداں سے سرخ پوش ترک فلک زمیں میں خجالت سے گڑ گیا برسوں کی راہ آ کے عزیزاں نکل گئے افسوس کارواں سے میں اپنے بچھڑ گیا آیا جو شرح لعل لب یار کا خیال جھنڈا قلم کا اپنے بدخشاں میں گڑ گیا میں نے لیا بغل میں پری رو وصال کو دیو فراق کشتی میں مجھ سے بچھڑ گیا آتشؔ نہ پوچھ حال تو مجھ درد مند کا سینہ میں داغ داغ میں ناسور پڑ گیا
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR