لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا

لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا

قبائے گل سے اسے استعارہ کیا کرتا

بہار گل میں ہیں دریا کے جوش کی لہریں

بھلا میں کشتیٔ مے سے کنارہ کیا کرتا

نقاب الٹ کے جو منہ عاشقوں کو دکھلاتے

تمہیں کہو کہ تمہارا نظارہ کیا کرتا

سنا جو حال دل زار یار نے تو کہا

طبیب مرتے ہوئے کاہے چارہ کیا کرتا

ہلال عید کا ہر چند ہو جہاں مشتاق

تمہاری ابروؤں کا سا اشارہ کیا کرتا

حقیقت دہن یار کھولتا کیوں کر

نہفتہ راز کو میں آشکارہ کیا کرتا

قدم کو پیچھے رہ خوفناک عشق میں رکھ

یہ پہلے دیکھ لے دل ہے اشارہ کیا کرتا

خم شراب سے مجھ مست نے نہ منہ پھیرا

کنار آب سے پیاسا کنارہ کیا کرتا

بہار تھی جو وہ گل چہرہ یار بھی ہوتا

اکیلے جا کے چمن کا نظارہ کیا کرتا

گداز موم سے ہر استخواں کو پاتا ہوں

پھر اور سوزش دل کا حرارا کیا کرتا

بڑا ہی خوار علاقہ ہے گلشن الفت

مری طرح کوئی اس میں اجارہ کیا کرتا

شراب خلد کی خاطر دہن ہے رکھتا صاف

وضو میں ورنہ یہ زاہد غرارہ کیا کرتا

شکستہ دل نہ ہو اس بت کے ناز سے کیوں کر

سلوک شیشہ سے ہے سنگ خارا کیا کرتا

بہار گل میں پیالہ لگا لیا منہ سے

شراب پینے کو میں استخارہ کیا کرتا

فقیر کو نہیں درکار شان امیروں کی

سر برہنہ سر گوشوارہ کیا کرتا

بہار گل میں تھا جامہ سے باہر اے آتشؔ

نہ کرتا میں جو گریباں کو پارہ کیا کرتا
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR