یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے

یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے

نفس امارہ کی گردن کو مروڑا چاہئے

تنگ آ کر جسم کو اے روح چھوڑا چاہئے

طفل طبعوں کے لیے مٹی کا گھوڑا چاہئے

زلف کے سودے میں اپنے سر کو پھوڑا چاہئے

جب بلا کا سامنا ہو منہ نہ موڑا چاہئے

گھورتی ہے تم کو نرگس آنکھ پھوڑا چاہئے

گل بہت ہنستے ہیں کان ان کے مروڑا چاہئے

آج کل ہوتا ہے اپنا عشق پنہاں آشکار

پک چکا ہے خوب اب پھوٹے یہ پھوڑا چاہئے

مانگتا ہوں میں خدا سے اپنے دل سے داغ عشق

بادشاہ حسن کے سکے کا توڑا چاہئے

ان لبوں کے عشق نے ہے جیسے دیوانہ کیا

بڑ اپنی ہے اک لالوں کا جوڑا چاہئے

دے رہا ہے گیسوئے مشکین سودے کو جگہ

کس کے آگے جا کے اپنے سر کو پھوڑا چاہئے

بادۂ گلگوں کے شیشہ کا ہوں سائل ساقیا

ساتھ کیفیت کے اڑتا مجھ کو گھوڑا چاہئے

یہ صدا آتی ہے رفتار سمند عمر سے

وہ بھی گھوڑا ہے کوئی جس کو کہ کوڑا چاہئے

قطع مقراض خموشی سے زباں کو کیجئے

قفل دے کر گنج پر مفتاح توڑا چاہئے

اپنے دیوانہ کا دل لے کر یہ کہتا ہے وہ طفل

یہ کھلونا ہے اسی قابل کہ توڑا چاہئے

زلفیں روئے یار پر بے وجہ لہراتی نہیں

کچھ نہ کچھ زہر اگلے یہ کالے کا جوڑا چاہئے

باغباں سے چھپ کے گل چینی جو کی تو کیا کیا

آنکھ بلبل کی بچا کر پھول توڑا چاہئے

فصل گل میں بیڑیاں کاٹی ہیں میرے پاؤں کی

ہاتھ میں حداد کے سونے کا توڑا چاہئے

باغ عالم میں یہی میری دعا ہے روز و شب

خار خار عشق گل رخسار توڑا چاہئے

عشق کی مشکل پسندی سے ہوا یہ آشکار

خوب صورت کو غرور حسن تھوڑا چاہئے

زمزمے سن کر مرے صیاد گل رو نے کہا

ذبح کیجے ایسے بلبل کو نہ چھوڑا چاہئے

پیر ہو آتشؔ کفن کا سامنا ہے عن قریب

توبہ کیجے دامن تر کو نچوڑا چاہئے
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR