کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے

کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے

مستوں کو جوش صوفیوں کو حال آ چکے

ہستی کو مثل نقش کف پا مٹا چکے

عاشق نقاب شاہد مقصود اٹھا چکے

کعبے سے دیر دیر سے کعبے کو جا چکے

کیا کیا نہ اس دوراہے میں ہم پھیر کھا چکے

گستاخ ہاتھ طوق کمر یار کے ہوئے

حد ادب سے پاؤں کو آگے بڑھا چکے

کنعاں سے شہر مصر میں یوسف کو لے گئے

بازار میں بھی حسن کو آخر دکھا چکے

پہنچے تڑپ تڑپ کے بھی جلاد تک نہ ہم

طاقت سے ہاتھ پاؤں زیادہ ہلا چکے

ہوتی ہے تن میں روح پیام اجل سے شاد

دن وعدۂ وصال کے نزدیک آ چکے

پیمانہ میری عمر کا لبریز ہو کہیں

ساقی مجھے بھی اب تو پیالہ پلا چکے

دیوانہ جانتے ہیں ترا ہوشیار انہیں

جامے کو جسم کے بھی جو پرزے اڑا چکے

بے وجہ ہر دم آئنہ پیش نظر نہیں

سمجھے ہم آپ آنکھوں میں اپنی سما چکے

اس دل ربا سے وصل ہوا دے کے جان کو

یوسف کو مول لے چکے قیمت چکا چکے

اٹھا نقاب چہرۂ زیبائے یار سے

دیوار درمیاں جو تھی ہم اس کو ڈھا چکے

زیر زمیں بھی تڑپیں گے اے آسمان حسن

بیتاب تیرے گور میں بھی چین پا چکے

آرائش جمال بلا کا نزول ہے

اندھیر کر دیا جو وہ مسی لگا چکے

دو ابرو اور دو لب جاں بخش یار کے

زندوں کو قتل کر چکے مردے جلا چکے

مجبور کر دیا ہے محبت نے یار کی

باہر ہم اختیار سے ہیں اپنے جا چکے

صدموں نے عشق حسن کے دم کر دیا فنا

آتشؔ سزا گناہ محبت کی پا چکے
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR