وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا

وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا

جو پہنی پھولوں کی بدھی تو درد شانہ ہوا

شہید ناز و ادا کا ترے زمانہ ہوا

اڑایا مہندی نے دل چور کا بہانہ ہوا

شب اس کے افعئ گیسو کا جو فسانہ ہوا

ہوا کچھ ایسی بندھی گل چراغ خانہ ہوا

نہ زلف یار کا خاکہ بھی کر سکا مانی

ہر ایک بال میں کیا کیا نہ شاخسانہ ہوا

تونگروں کو مبارک ہو شمع کافوری

قدم سے یار کے روشن غریب خانہ ہوا

گناہ گار ہیں محراب تیغ کے ساجد

جھکایا سر تو ادا فرض پنجگانہ ہوا

غرور عشق زیادہ غرور حسن سے ہے

ادھر تو آنکھ بھری دم ادھر روانہ ہوا

دکھا دے زاہد مغرور کو بھی اے صنم آنکھ

جمال حور کا حد سے سوا فسانہ ہوا

بھرا ہے شیشۂ دل کو مئے محبت سے

خدا کا گھر تھا جہاں واں شراب خانہ ہوا

ہوائے تند نہ چھوڑے مرے غبار کا ساتھ

یہ گرد راہ کہاں خاک آستانہ ہوا

خدا کے واسطے کر یار چین ابرو دور

بڑا ہی عیب لگا جس کماں میں خانہ ہوا

ہوا جو دن تو ہوا اس کو پاس رسوائی

جو رات آئی تو پھر نیند کا بہانہ ہوا

نہ پوچھ حال مرا چوب خشک صحرا ہوں

لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا

نگاہ ناز بتاں سے نہ چشم رحم بھی رکھ

کسی کا یار نہیں فتنۂ زمانہ ہوا

اثر کیا تپش دل نے آخر اس کو بھی

رقیب سے بھی مرا ذکر غائبانہ ہوا

ہوائے تند سے پتا اگر کوئی کھڑکا

سمند باد بہاری کا تازیانہ ہوا

زبان یار خموشی نے میری کھلوائی

میں قفل بن کے کلید در خزانہ ہوا

کیا جو یار نے کچھ شغل برق اندازی

چراغ زندگیٔ خضر تک نشانہ ہوا

رہا ہے چاہ ذقن میں مرا دل وحشی

کنوئیں میں جنگلی کبوتر کا آشیانہ ہوا

خدا دراز کرے عمر چرخ نیلی کو

یہ بے کسوں کے مزاروں کا شامیانہ ہوا

نہیں ہے مثل صدف مجھ سا دوسرا کم بخت

نصیب غیر مرے منہ کا آب و دانہ ہوا

حنائی ہاتھوں سے چوٹی کو کھولتا ہے یار

کہاں سے پنجۂ مرجاں حریف شانہ ہوا

دکھائی چشم غزالاں نے حلقۂ زنجیر

ہمیں تو گوشۂ صحرا بھی قید خانہ ہوا

ہمیشہ شام سے ہمسائے مر رہے آتشؔ

ہمارا نالۂ دل گوش کو فسانہ ہوا
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR