قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ

قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ

خال مشکیں دل فرعوں ید بیضا ہے وہ رخ

نور جو اس میں ہے خورشید میں وہ نور کہاں

یہ اگر حسن کا چشمہ ہے تو دریا ہے وہ رخ

پھوٹے وہ آنکھ جو دیکھے نگہ بد سے اسے

آئینہ سے دل عارف کے مصفا ہے وہ رخ

بزم عالم ہے توجہ سے اسی کے آباد

شہر ویراں ہے اگر جانب صحرا ہے وہ رخ

سامری چشم فسوں گر کی فسوں سازی سے

لب جاں بخش کے ہونے سے مسیحا ہے وہ رخ

دم نظارہ لڑے مرتے ہیں عاشق اس پر

دولت حسن کے پیش آنے سے دنیا ہے وہ رخ

سایہ کرتے ہیں ہما اڑ کے پروں سے اپنے

تیرے رخسار سے دلچسپ ہو عنقا ہے وہ رخ

گل غلط لالہ غلط مہر غلط ماہ غلط

کوئی ثانی نہیں لا ثانی ہے یکتا ہے وہ رخ

کون سا اس میں تکلف نہیں پاتے ہر چند

نہ مرصع نہ مذہب نہ مطلا ہے وہ رخ

خال ہندو ہیں پرستش کے لیے آئے ہیں

پتلیاں آنکھوں کی دو بت ہیں کلیسا ہے وہ رخ

کون سا دل ہے جو دیوانہ نہیں ہے اس کا

خط شب رنگ سے سرمایۂ سودا ہے وہ رخ

اس کے دیدار کی کیوں کر نہ ہوں آنکھیں مشتاق

دل ربا شے ہے عجب صورت زیبا ہے وہ رخ

تا کجا شرح کروں حسن کے اس کے آتشؔ

مہر ہے ماہ ہے جو کچھ ہے تماشا ہے وہ رخ
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR