دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھی

دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھی

صبح تک شام سے یاہو کے سوا بات نہ تھی

التجا تجھ سے کب اے قبلۂ حاجات نہ تھی

تیری درگاہ میں کس روز مناجات نہ تھی

اب ملاقات ہوئی ہے تو ملاقات رہے

نہ ملاقات تھی جب تک کہ ملاقات نہ تھی

غنچۂ گل کو نہ ہنسنا تھا تری صورت سے

چھوٹے سے منہ کی سزاوار بڑی بات نہ تھی

ابتدا سے تجھے موجود سمجھتا تھا میں

مرے تیرے کبھی پردے کی ملاقات نہ تھی

اے نسیم سحری بہر اسیران قفس

تحفہ تر نکہت گل سے کوئی سوغات نہ تھی

ان دنوں عشق رلاتا تھا ہمیں صورت ابر

کون سی فصل تھی وہ جس میں کہ برسات نہ تھی

کیا کہوں اس کے جو مجھ پر کرم پنہاں تھے

ظاہری یار سے ہر چند ملاقات نہ تھی

اپنے باندھے ہوئے گاتی تجھے دیکھا پھڑکا

دل ربا شے تھی مری جان تری گات نہ تھی

اک میں مل گئے اے شاہ سوار اہل نیاز

ناز معشوق تھا تو سن کی ترے لات نہ تھی

لب کے بوسہ کا ہے انکار تعجب اے یار

پھیرے سائل سے جو منہ کو وہ تری ذات نہ تھی

کمر یار تھی ازبسکہ نہایت نازک

سوجھتی بندش مضموں کی کوئی گھات نہ تھی

ان دنوں ہوتا تھا تو گھر میں ہمارے شب باش

روز روشن سے کم اے مہر لقا رات نہ تھی

بے شعوروں نے نہ سمجھا تو نہ سمجھا آتشؔ

نکتہ سنجوں کو لطیفہ تھی تری بات نہ تھی
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR