مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے

مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے

الٹتی ہیں صفیں گردش میں جب پیمانہ آتا ہے

نہایت دل کو ہے مرغوب بوسہ خال مشکیں کا

دہن تک اپنے کب تک دیکھیے یہ دانہ آتا ہے

خوشی سے اپنی رسوائی گوارا ہو نہیں سکتی

گریباں پھاڑتا ہے تنگ جب دیوانہ آتا ہے

فراق یار میں دل پر نہیں معلوم کیا گزری

جو اشک آنکھوں میں آتا ہے سو بیتابانہ آتا ہے

بگولے کی طرح کس کس خوشی سے خاک اڑاتا ہوں

تلاش گنج میں جو سامنے ویرانہ آتا ہے

سمجھتے ہیں مرے دل کی وہ کیا نافہم و ناداں ہیں

حضور شمع بے مطلب نہیں پروانہ آتا ہے

طلب دنیا کو کر کے زن مریدی ہو نہیں سکتی

خیال آبروئے ہمت مردانہ آتا ہے

ہمیشہ فکر سے یاں عاشقانہ شعر ڈھلتے ہیں

زباں کو اپنی بس اک حسن کا افسانہ آتا ہے

تماشا گاہ ہستی میں عدم کا دھیان ہے کس کو

کسے اس انجمن میں یاد خلوت خانہ آتا ہے

صبا کی طرح ہر اک غیرت گل سے ہیں لگ چلتے

محبت ہے سرشت اپنی ہمیں یارانہ آتا ہے

زیارت ہوگی کعبہ کی یہی تعبیر ہے اس کی

کئی شب سے ہمارے خواب میں بت خانہ آتا ہے

خیال آیا ہے آئینہ کا منہ اس میں وہ دیکھیں گے

اب الجھے بال سکھلانے کی خاطر شانہ آتا ہے

پھنسا دیتا ہے مرغ دل کو دام زلف پیچاں میں

تمہارے خال رخ کو بھی فریب دانہ آتا ہے

عتاب و لطف جو فرماؤ ہر صورت سے راضی ہیں

شکایت سے نہیں واقف ہمیں شکرانہ آتا ہے

خدا کا گھر ہے بت خانہ ہمارا دل نہیں آتشؔ

مقام آشنا ہے یاں نہیں بیگانہ آتا ہے
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR