رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجیے

رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجیے

عالم ارواح سے صحبت کوئی دم کیجیے

حالت غم کو نہ بھولا چاہئے شادی میں بھی

خندۂ گل دیکھ کر یاد اشک شبنم کیجیے

عیب الفت روز اول سے مری طینت میں ہے

داغ لالہ کے لیے کیا فکر مرہم کیجیے

اپنی راحت کے لیے کس کو گوارا ہے یہ رنج

گھر بنا کر گردن محراب کو خم کیجیے

عشق کہتا ہے مجھے رام اس بت وحشی کو کر

حسن کی غیرت اسے سمجھاتی ہے رم کیجیے

رات صحبت گل سے دن کو ہم بغل خورشید سے

رشک اگر کیجے تو رشک بخت شبنم کیجیے

دیدہ و دل کو دکھایا چاہئے دیدار یار

حسن کے عالم سے آئینوں کو محرم کیجیے

شکل گل ہنس ہنس کے روز وصل کاٹے ہیں بہت

ہجر کی شب صبح رو کر مثل شبنم کیجیے

تھی سزا اپنی جو شادی مرگ قسمت نے کیا

ہجر میں کس نے کہا تھا وصل کا غم کیجیے

آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت

بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجیے

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجیے

روز مردم شب کیے دیتا ہے سرمہ پوچھیے

خون ہوتے ہیں بہت شوق حنا کم کیجیے

آئنے کو روبرو آنے نہ دیجے یار کے

شانے سے آتشؔ مزاج زلف برہم کیجیے
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ءمیں ہوئی ۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔ آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور ان کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنؤ میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مضحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR